لئے قدامت نوعی ضروری ہے۔ مگر قدامت شخصی ضروری نہیں۔‘‘
(ص۲۶۳،۲۶۰،۲۷۴،۲۷۵، خزائن ج۲۳ص۲۶۲،۲۷۲)
۱۱… مومن کی صحیح شان یہ ہے کہ بلا استصواب و مطالعہ کتاب اﷲ کوئی جرأت نہیں کر سکتا۔ دیکھو (ملفوظات احمدیہ ص۳۴۹ج۱) ’’لیکن وہ انسان جو اﷲ کا ولی کہلاتا ہے اور خدا جس کی زندگی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ وہ ہوتا ہے جس کی وہ حرکت و سکون بلا استصواب کتاب الٰہی نہیں ہوتی وہ اپنی ہر بات وارادہ پرکتاب اﷲ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے مشورہ لیتاہے۔‘‘
لیکن مرزا نے حیات مسیح کا اعتقاد (براہین احمدیہ ص۴۹۹، خزائن ج۱ص۵۹۳)میں رکھتے ہوئے کتاب اﷲ سے کیوں نہ استصواب کیا اور کیوں رسمی عقیدہ پر بارہ برس تک جما رہا(اعجاز احمدی ص۷) حالانکہ تیرے قول سے قرآن مجید کی تیس آیات خصوصی طور پر وفات مسیح پر دال ہیں۔
(ملفوظات احمدیہ ص۲۳۸ ج۱)’’تیس آیات مخصوصاً مسیح علیہ السلام کی وفات پرگواہ ہیں۔‘‘ نیز مرزا بشیر محمود کے خیال میں جب اس کا باپ غلام احمد قادیانی ختم نبوت کو قرآن سے ثابت کرتا رہا تھا تو کیوں نہ کتاب اﷲ سے استصواب کرلیا؟
۱۲… مرزاکہتا ہے ’’دابۃ الارض‘‘ کا معنی طاعون کے جراثیم کے علاوہ اور کچھ کرنا الحاد اور دجل ہے۔ (نزول مسیح ص۴۰،خزائن ج۱۸ص۴۱۸) مرزا خود اس جرم کامرتکب ہے۔ وہ اس کا معنی علماء اور متکلمین قرار دیتا ہے۔ دیکھو (شہادۃ القرآن ص۲۵، خزائن ج۶ص۳۲۱) ’’گیارھویں علامت دابۃ الارض کا ظہور میں آنا یعنی ایسے واعظوں کا بکثرت ہو جانا جن میں آسمانی نور ذرہ بھی نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۰۲، خزائن ج۳ص۳۶۹،۳۷۰)’’دابۃ الارض‘‘ سے مراد کوئی لایعقل جانور نہیں۔ بلکہ بقول حضرت علیؓ آدمی کا نام ہی دابۃ الارض ہے۔ اس جگہ دابۃ الارض سے مراد ایک ایسا طائفہ انسانو ں کا مراد ہے جو آسمانی روح اپنے اندر نہیں رکھتے… وہ گروہ متکلمین کا ہو گا۔ (مثلہ حمامۃ البشریٰ ص۸۶، خزائن ج۷ص۳۰۸)
۱۳… مومن کی فطرت میں حضرت مسیح علیہ السلام کی تعظیم مرکوز ہے۔ لیکن مرزا نے آپ کی توہین کی ہے۔ اس لئے مرزا مومن نہ رہا، بلکہ کافر ہو گیا۔ (ضمیمہ نمبر۳ص ج، ملحقہ تریاق القلوب ، خزائن ج۱۵ص۴۹۱)’’ مسلمان سے یہ ہرگز نہیںہوسکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبی کریمﷺ کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے۔ کیونکہ مسلمانوں کے دلوں میں دودھ کے ساتھ ہی یہ اثر پہنچایاگیا ہے کہ وہ جیسے نبی کریمﷺ سے محبت رکھتے ہیں۔ ویسا ہی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘