ص۲۱۴)’’ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی۔ جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو… وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ظلی خدا پوری تصویر خدا کی ہوگی۔ عیاذا باﷲ!
۹… کسی میں باذن اﷲ علم غیب ماننا بھی شرک و الحاد ہے۔ بحوالہ(ازالہ اوہام ص۲۲۹، خزائن ج۳ ص۲۵۲)محولہ بالا مرزا نے غیر خدا کے لئے علم غیب کامل تسلیم کیا ہے۔ دیکھو(حقیقت الوحی ص۳۳۶، خزائن ج۲۲ص۳۴۹،۳۵۰)’’لا یظہر علی غیبہ احداً الا من ارتضیٰ من رسول یعنی غیب کا ایسا دروازہ کسی پر کھولنا کہ گویا وہ غیب پر غالب اور غیب اس کے قبضہ میں ہے۔ یہ تصرف علم غیب میں بجز خدا کے برگزیدہ رسولوں کے اور کسی کو نہیں دیا جاتا کہ کیا باعتبار کیفیت، کیا باعتبار کمیت غیب کے دروازے اس پر کھولے جاتے ہیں۔‘‘
(ضرورۃ الامام ص۱۳، خزائن ج۱۳ص۴۸۳)’’امام الزمان کی الہامی پیش گوئیاں اظہار علی الغیب کا رتبہ رکھتی ہیں۔ یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میںکر لیتی ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑی کو قبضہ میں کرتاہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۶۷، خزائن ج۲۱ص۸۶)’’خدا تعالیٰ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے کہ ہر ایک مومن پر غیب کامل کے امورظاہر نہیں کئے جاتے۔ بلکہ محض ان بندوں پر جو اصطفاء اور احباء کا درجہ رکھتے ہیں، ظاہر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے ’’لایظہر علی غیبہ احدالامن ارتضیٰ من رسول‘‘یعنی اﷲ تعالیٰ غیب پرکسی کو غالب نہیں ہونے دیتا۔ مگر ان لوگوں کو جو رسول اور اس کی درگاہ کے پسندیدہ ہیں۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۷۱، خزائن ج۱۴ص۴۱۹حاشیہ)’’قرآن شریف میں ہے ’’لایظہر علی غیبہ احدالامن ارتضیٰ من رسول‘‘ یعنی کامل طور پر غیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے۔ دوسرے کویہ مرتبہ عطاء نہیں ہوتا۔ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جو اﷲ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں۔ خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث یا مجددہوں۔‘‘
۱۰… مرزا قادیانی قدم عالم کا قائل ہے جو فلسفہ یونان کا نظریہ ہے۔
(چشمہ معرفت ص۱۶۰، خزائن ج۲۳ص۱۶۸)’’پس خدا تعالیٰ کی صفات قدیمہ کے لحاظ سے مخلوق کا وجود نوعی طور پر قدیم ماننا پڑتا ہے۔ نہ شخصی طور پر یعنی مخلوق کی نوع قدیم سے چلی آتی ہے۔ ایک نوع کے بعد دوسری نوع خدا تعالیٰ پیدا کرتا چلا آیا ہے۔ سو اسی طرح ہم ایمان رکھتے ہیں اور یہی قرآن شریف نے ہمیں سکھایا ہے…خدا تعالیٰ کی قدیم صفات پر نظر کر کے مخلوق کے