۷… پنجابی لوگ عام طور پر رواج کی پابندی کرتے۔ قرآن و حدیث کی چنداں پرواہ نہ کرتے۔ مرزا بھی اسی مرض کا شکار ہوا۔ مثلاً حیات مسیح کے مسئلہ میں خود لکھتا ہے کہ میں تم لوگوں کے رواج کے مطابق حیات مسیح کا سالہا سال تک قائل رہا اور ختم نبوت کے مسئلہ میں مرزا کا بیٹا محمود لکھتا ہے کہ میرا ابا جو ختم نبوت کا قائل رہا تو وہ لوگوں کے رواج کے مطابق اس کا پابند رہا۔ دیکھو (اعجاز احمدی ص۶)’’کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے سے پہلے براہین احمدیہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا اقرار موجود ہے۔ اے نادانو! اپنی عاقبت کیو ں خراب کرتے ہو۔ اس اقرارمیں کہاں لکھا ہے کہ یہ خدا کی وحی سے بیان کرتا ہوں اور مجھے کب اس امر کادعویٰ ہے کہ میں عالم الغیب ہوں۔ جب تک خدا نے مجھے اس طرف توجہ نہ دی اور بار بار نہ سمجھایا کہ تومسیح موعود ہے اور عیسیٰ فوت ہو گیا ہے۔ تب تک میں اسی عقیدہ پرقائم تھا جو تم لوگوں کاعقیدہ ہے۔‘‘
(مثلہ ایام الصلح ص۴۱،خزائن ج ۱۴ص۲۷۱،۲۷۲، حقیقت الوحی ص۱۴۹،خزائن ج۲۲ص۱۵۳)
(حقیقت النبوۃ مولفہ مرزا محمود ص۱۲۲،۱۲۳)’’نبی کی وہ تعریف جس کی رو سے آپ اپنی نبوت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ یہ ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکام منسوخ کرے یا یہ کہ اس نے بلاواسطہ نبوت پائی ہو اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو ۔ یہ تعریف عام طور پر مسلمانوں میں مسلّم تھی۔‘‘
۸… پنجاب کے لوگ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے دوسروں کی عورتوں کو طلاقیں دلوا دیتے۔ مرزا نے بھی اپنی بہو کو اس لئے طلاق دلوائی کہ وہ مرزا کے لئے محمدی بیگم کے عقد کرانے کی کوشش نہیںکرتی۔ دیکھو (سیرۃ المہدی ص۲۸،۲۹، روایت نمبر۳۷)’’بیان کیا مجھے والدہ صاحبہ نے کہ جب محمدی بیگم کی شادی دوسری جگہ ہو گئی اور قادیان کے تمام رشتہ داروں نے حضرت صاحب کی سخت مخالفت کی اور خلاف کوشش کرتے رہے اور سب نے احمد بیگ والد محمدی بیگم کا ساتھ دیا اور خود کوشش کر کے لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرا دی توحضرت صاحب نے مرزاسلطان احمد اورمرزا فضل احمد دونوں کو الگ الگ خط لکھا۔ ان سب لوگوں نے میری مخالفت کی ہے۔
اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیںرہا اور ان کے ساتھ اب ہماری قبریں بھی اکٹھی نہیںہو سکتیں۔ لہٰذا اب تم اپنا آخری فیصلہ کرو۔ اگر تم نے میرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ان سے قطع تعلق کرناہو گا اوراگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہ سکتا۔ میں اس صورت میں تم کو عاق کرتا ہوں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ مرزا سلطان احمد کا جواب آیا کہ مجھ پر تائی صاحبہ کے بہت احسانات ہیں۔ ان سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ مگر فضل احمد نے لکھا کہ میرا