(ص۲۳۰ آئینہ کمالات اسلام جو ۱۸۹۳ء میں چھپی ہے) اس کے مصنف میرے والد بزرگوار ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے۔ جب ہماراخاندان شریعت کا پابند حقوق وراثت میں نہیں تھا اور ہبہ کی جوازیت میرے والد صاحب کی رضا مندی پر پابند تھی۔ کیونکہ شریعت کے مطابق نہیں ہے۔
مکررجرح واقعہ یہ ہے کہ مرزا سلطان احمد کو میرے تایا نے متبنیٰ نہیں بنایا تھا۔ مگر تایا کی وفات کے بعد ہماری تائی صاحبہ نے والد صاحب کو کہا کہ جو ان کی جائیداد تایا کی ہے۔ ان کا انتقال سلطان احمد کے نام کرا دیں۔ کیونکہ وارث مابعد ہوگا۔ اس وقت میرے والد صاحب کے دو لڑکے تھے۔ مرزا فضل احمد اور مرزا سلطان احمد۔ مرزا فضل احمد جب فوت ہو گئے اور والد صاحب زندہ تھے۔ مرزا سلطان احمد کی والدہ پہلے مر چکی تھیں۔ہمارے والد نے ہماری والدہ کو کہا کہ سلطان احمد نے پہلے سے ۲/۱ حصہ پالیا ہے۔ اب جائیداد اس کے بچوں کو ملے گی۔ اس کے پیشتر کئی سال پیشتر (ص۱۱۸،۱۳۷) میںذکر سیرۃ المہدی میں ہوا ہے اور (ص۱۶،۲۲) میںبھی ذکر متبنیٰ کا ہے۔ اس کے لئے (آئینہ کمالات اسلام ص۲۳۰)بھی دیکھ لیناچاہئے۔(نیز قادیان کی واجب الارض میں مرزا کا رواج کی پابندی کا بیان موجود ہے)
۵… پنجابی لوگ اعلانیہ رمضان کے دنوں میں کھاناپینا کرتے اور بے تحاشہ رمضان کی بے حرمتی کرتے۔ مرزا بھی اس میں کچھ کم نہ تھا۔ دیکھو (اخبار الحکم نمبر۴ج۱۰کالم ۱،۲،۳،وسائل کا خط)’’ابھی کسی حال کے اخبار وکیل امرتسر میں یہ خبر پڑھی کہ مرزاصاحب نے بزمانہ قیام امرتسر باوجود رمضان کے اثناء لیکچر میں چائے نوشی شروع کی اور جب اعتراض کیا گیا تو آپ لوگوں کی طرف سے یہ عذر پیش ہوا کہ…یہ خیال نہ کیجئے گا کہ میں مجادلہ کرنا چاہتاہوں۔ حاشاوکلا… یہی سبب ہے کہ میرے بہت سے دوست مجھ کو مرزائی احمدی، قادیانی وغیرہ ناموں سے یاد کرتے ہیں۔‘‘
۶… پنجابی حکومت پرست علماء انگریز کو قرآن مجید کی آیت ’’واولی الامرمنکم‘‘ کا مصداق بناتے۔مرزا بھی اس چاپلوسی میں کسی سے پیچھے نہ رہا۔ بلکہ یہ لوگ تو زبانی کہتے مرزا نے اپنی تحریروں میں لکھ دیا۔ دیکھو (ضرورۃ الامام ص۲۳، خزائن ج۱۳ص۴۹۳)’’اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم‘‘
اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طورپر امام الزمان ہے اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے۔ وہ ہم میں سے ہے۔اس لئے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولی الامر میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں۔‘‘