رکھتا ہے۔ خواہ خود بحث کرنے والا تھا یا معاون یا حامی یا سرکردہ تھا۔‘‘
(ص۷،۸، خزائن ج۹ص۸)’’یہ تو مسٹر عبداﷲ آتھم کا حال ہوا۔ مگر اس کے باقی رفیق بھی جو فریق بحث کے لفظ میں داخل تھے… ان میں سے کوئی بھی اثر ھاویہ سے خالی نہ رہا اور ان سب نے میعاد کے اندر اپنی اپنی حالت کے موافق ہاویہ کا مزہ چکھ لیا…ڈاکٹر مارٹن کلارک اور ویسے ہی اس کے دوسرے تمام دوستوں اورعزیزوں اور ماتحتوں کو سخت صدمہ پہنچایا۔‘‘
اور(کتاب البریہ میں جو ۱۸۹۷ء میں بیان عدالت میں دیا۔ بالکل اس کی ضد ہے اور ہے بھی وہ بیان بعد تالیف انوارالاسلام کے کتاب البریہ ص۱۷۳، خزائن ج۱۳ص۲۰۶)’’ہم نے کبھی پیش گوئی نہیں کی کہ ڈاکٹر کلارک صاحب مر جائیںگے…عبداﷲ آتھم صاحب کی درخواست پر پیش گوئی صرف اس کے واسطے کی تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیش گوئی نہ تھی۔‘‘
(کتاب البریہ ص۴۴،۲۴۵، حزائن ج۱۳ص۲۷۹،۲۸۰)’’ڈاکٹر کلارک صاحب کی بابت یہ پیش گوئی نہ تھی اور نہ وہ اس پیش گوئی میں شامل تھا۔ فریق سے مراد آتھم ہے جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے فریق اور شخص کے ایک ہی معنی ہیں…میں نے کوئی پیش گوئی نہ اشارہ کیا نہ کنایہ، ڈاکٹر کلارک صاحب کی بابت کی۔‘‘
۲… دوسرا جھوٹ عدالت میں یہ ہوا کہ ۱۸۹۷ء میں (انجام آتھم کے ضمیمہ)میں لکھا کہ میرے مریدوں کی تعدادآٹھ ہزار سے زائد ہے اور جب انکم ٹیکس کامقدمہ ۱۸۹۸ء میں دائر ہوا تو اس وقت اپنے مریدوں کی تعداد صرف ۳۱۸ تسلیم کی۔ گویا ایک سال بعد تمام کے تمام مریدوں میں طاعون ہی نازل ہو گئی۔ ملاحظہ ہوں حوالہ جات۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۶، خزائن ج۱۱ص۳۱۰)’’مباہلہ سے پہلے میرے ساتھ شاید تین یا چار سو آدمی ہوں گے۔ اب آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ میں جانفشاںہیں۔‘‘
(ضرورۃ الامام ص۴۳، خزائن ج۱۳ص۵۱۴)’’مرزا غلام احمدابتدائی ایام میں خود ملازمت کرتا رہا… اور اس امر کی ہمیشہ کوشش کرتارہا کہ وہ ایک مذہبی سرگروہ مانا جائے…اس فرقہ میں حسب فہرست منسلکہ ہذا ۳۱۸ آدمی ہیں۔‘‘
(ضرورۃ الاسلام ص۴۲، خزائن ج۱۳ص۵۱۳)’’اس جگہ محنت اور تفتیش منشی تاج الدین صاحب تحصیلدار پرگنہ بٹالہ قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے صاف اور احقاق حق مقصود رکھ کر واقعات صحیحہ کو آئینہ کی طرح حکام بالا دست کو دکھادیا۔‘‘
یہ بیان جو داخل عدالت ہوا۔وہ ایک تحصیلدار کا بیان تھاجس کی تصدیق ص۷۲ میں