(حصہ پنجم براہین ص۵۶، خزائن ج۲۱ص۷۲)’’ان چند سطروں میںجو پیش گوئیاں ہیں۔ وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں۔ جو دس لاکھ سے زائد ہوںگے اورنشان بھی ایسے کھلے کھلے جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں…اور بہت ہی سخت گیری اور زیادہ سے زیادہ احتیاط سے بھی ان کا شمار کیا جائے تب بھی یہ نشان جوظاہر ہوئے، دس لاکھ سے زائد ہوںگے۔‘‘
۷… آنحضرتﷺ کا علم بھی مرزا سے (عیاذاباﷲ) کم تھا۔(ازالہ اوہام ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳)’’ اگر آنحضرتﷺ پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمو منکشف نہ ہوئی اور نہ دجال کے ستر باغ کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج و ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کما ہی ہی ظاہر کی گئی ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔‘‘
گویا مرزا اپنے آپ کو اب ان سب امور کا حقیقی عالم اور واقف سمجھتا ہے اور آپﷺ کے متعلق یہ کہتا ہے کہ آپﷺ کو ان اشیاء کے حقائق نہ معلوم ہوئے ہوں۔ نعوذ باﷲ!
۸… (تحفہ گولڑویہ ص۷۰، خزائن ج۱۷ص۲۰۵)’’خدا وند تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے چھپانے کے لئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ و تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی۔‘‘ مگر اپنی جائے قبر کے متعلق مرزایہ لکھتا ہے:
(رسالہ الوصیۃ ص۱۵، خزائن ج۲۰ ص۳۱۶)’’اور مجھے ایک جگہ دکھائی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہو گی۔ ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا تھا۔ تب ایک مقام پر اس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ تیری قبر کی جگہ ہے۔ پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی مٹی چاندی کی تھی۔ تب مجھے کہاگیا کہ یہ تیری قبر ہے۔‘‘
آنحضرتﷺ کی جگہ اورمرزا کی جگہ کا موازنہ کرو عباذاباﷲ!
۹… (خطبہ الہامیہ ص۱۷۷، خزائن ج۱۶ص۲۶۶)’’ہمارے نبی کریمﷺ کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اوروہ زمانہ اس روحانیت کی ترقی کا انتہا نہ تھا۔ بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت پوری طرح سے تجلی فرمائی۔‘‘
(ص۱۸۱، خزائن ج۱۶ص۲۷۲)’’بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بنسبت ان سالوں(جب آنحضرت بذات شریفہ دنیا میں رونق افروز تھے۔ناقل) کے اقوی اور اکمل اور اشد ہے۔ بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔‘‘