قادیانی حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات قرآن مجید کی دو آیتوں سے ثابت کرتا ہے۔ اس قول کے لحاظ سے مرزا از روئے قرآن مجید حیات مسیح کا قائل ٹھہرا۔
۲… اس قول میں مرزا قادیانی حضرت مسیح علیہ السلام کا واقعہ صلیبی میں ہی فوت ہوجانا تسلیم کرتا ہے۔ گویا حضرت مسیح بزعم مرزائیہ صلیبی واقعہ میں فوت ہو کر راندہ درگاہ الٰہی ٹھہرے اور ملعون ہوئے۔ عیاذاباﷲ۔ قول ملاحظہ ہو:
(ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب ص۴۲، خزائن ج۴ ص۴۷۴)’’بلکہ سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی کے ناگہانی طورپرپکڑا گیا…اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح زندہ رہنا اور کچھ اور دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا ہے اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کس طرح اس کی جان بچ جائے۔ لیکن بلا مرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آگیا۔‘‘
(اتمام الحجہ ص۱۷، خزائن ج۸ص۲۹۴)’’دیکھو کتاب مجمع بحار الانوار جلد اول ص۲۸۶ جو اس حکماً کے لفظ کی شرح لکھتا ہے۔’’ینزل (ای ینزل عیسیٰ) حکما ای حاکما بہذہ الشریعۃ الانبیاء والا کثران عیسیٰ لم یمت وقال مالکؒ مات وھوابن ثلث و ثلثین سنۃ ‘‘یعنی حضرت عیسیٰ ایسی حالت میں نازل ہوگا جو اس شریعت کے مطابق حکم کرے گا۔ نہ نبی ہوگا اور اکثر کا قول یہ ہے کہ عیسیٰ نہیںمرا اور امام مالکؒ نے کہا ہے کہ عیسیٰ مر گیا اور وہ تینتیس برس کا تھا۔ جب فوت ہوا۔‘‘
تو گویا واقعہ صلیبی میں ہی لعنتی موت سے مر گیا۔(عیاذا باﷲ)
تیسرا قول یہ ہے کہ واقعہ صلیبی پر فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ وہاں سے کشمیر چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے، وہیںان کی قبرہے۔ یہ آج کل مرزائیوں کامشہور قول ہے۔ جیسے (حقیقت الوحی ص۱۰۱حاشیہ، خزائن ج۲۲ص۱۰۴) میںہے۔’’مگر خدا کا کلام قرآن شریف گواہی دیتا ہے کہ وہ مر گیا اور اس کی قبرسری نگر کشمیر میں ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’واوینا ہما الی ربوۃ ذات قرار و معین‘‘ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچا کر ایک ایسے پہاڑ پر پہنچا دیا جو آرام اور خوش حالی کی جگہ ہے۔‘‘
مرزا کی عربی کی فحش اغلاط
(براہین احمدیہ ص۱۵۸تا۱۶۴، خزائن ج۱ ص۱۶۶تا۱۷۵)’’گو کسی بشر کا کلام کیسا ہی صاف اور شستہ ہو۔ مگر اس کی نسبت یہ کہنا جائز نہیں ہو سکتا کہ فی الواقع تالیف اس کی انسانی طاقتوں سے باہر ہے… پس یہ خیال تو سراسر سودائیوں اور مخبوط الحواسوں کا ہے کہ پہلے ایک چیز کو اپنے منہ سے