ان تمام دعاوی کے حوالہ جات کو میں ذیل میں بالترتیب انشاء اﷲ تعالیٰ ذکر کروں گا۔
۱… ہمارے دعوے کی بنیاد حضرت عیسیٰ کی وفات پر ہے۔
(ایام الصلح ص۳۹، خزائن ج۱۴ ص۲۶۹)
’’فان بحث الوفات والحیات مقدم فی ہذہ المناظرات‘‘
(انجام آتھم ص۱۳۳،۱۳۴، خزائن ج۱۱ص ایضا، مثلہ آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹،خزائن ج۵ ص ایضاً)
۲… صرف مابہ النزاع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۳… ’’فمن سوء الادب ان یقال ان عیسیٰ مامات ان ھوالاشرک عظیم‘‘
ترجمہ… یہ کہنا تو سوء ادب ہے کہ عیسیٰ فوت نہیں ہوئے۔ یہ تو شرک عظیم ہے۔
(الاستفتاء ص۳۹،خزائن ج۲۲ص۶۶۰)
۴… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وفات پانا کوئی مشتبہ امر نہ تھا۔ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بیان کر چکا ہے،الخ۔ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۴، خزائن ج۲۲ص۴۵۶)
۵… ’’فانظر کیف بین اﷲ تعالیٰ وفات المسیح فی کتابہ ثم انظر ھل یکون من البیان و الشرح والا یضاح والتصریح اکثر من ہذا‘‘
ترجمہ… دیکھئے اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں عیسیٰ کی وفات کو کس طرح واضح بیان کر دیا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی بیان، شرح، توضیح یا تصریح ہو سکتی ہے؟
(حمامۃ البشریٰ ص۲۲، خزائن ج۷ ص۲۰۴)
۶… ’’اعلم ان وفات عیسیٰ علیہ السلام ثابت بالنصوص القطعیۃ الیقینیۃ‘‘ (حمامۃ البشریٰ حاشیہ متعلقہ ص۵۶، خزائن ج۷ ص۲۵۴)
ترجمہ… جان لیجئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قطعی اور یقینی نصوص سے ثابت ہے۔
۷… ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے۔ اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبیﷺ کی توہین ہوتی ہے۔ (حاشیہ گولڑویہ ص۱۱۲)
۸… توفی کے لفظ سے یہ نکالنا کہ گویا خدا تعالیٰ نے نہ صرف مسیح بن مریم کی روح کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ بلکہ اس کے جسم عنصری کو بھی ساتھ ہی اٹھا لیا۔ یہ کیسا جہالت سے بھرا ہوا خیال