اب اس مسئلہ کے دور ثانی کی پوزیشن مرزا کی نظر میں ملاحظہ ہو۔
۱… کہ یہی مسئلہ ہمارے اصول مناظرات میں سے ہے۔
(ضمیمہ حصہ پنجم ص۱۵۲، انجام آتھم ص۱۳۳، خزائن ج۱۱ص ایضاً)
۲… یہی میرے صدق و کذب کی مدار ہے۔
۳… حیات مسیح کا عقیدہ رکھنا بہت بڑا شرک ہے۔
۴… مسئلہ وفات مسیح بالکل غیر مشتبہ مسئلہ تھا۔
۵… وفات مسیح کا مسئلہ قرآن مجید میں اس قدر وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ اس سے زیادہ وضاحت ممکن نہیں۔
۶… وفا ت مسیح نصوص قطعیہ یقینیہ سے ثابت ہے۔
۷… حیات مسیح میں آنحضرتﷺ کی توہین ہوتی ہے۔
۸… مسئلہ حیات مسیح سخت جہالت سے بھرا ہوا ہے۔
۹… حیات مسیح نصوص قرآن کے صریح اور بدیہی مخالف ہے۔
۱۰… حیات مسیح کا قول قرآن مجید کی تحریف ہے۔ اس پر کوئی آیت حدیث، قول سلف یا امام مجتہد دال نہیں۔ ایسے مسئلہ کے قائلین محرفین پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
۱۱… وفات مسیح پر صحابہؓ کا سب سے اوّل اجماع تھا۔
۱۲… حیات مسیح کا عقیدہ قرون ثلثہ سلف میں نہ تھا۔
۱۳… حیات مسیح کا عقیدہ کھلے طور پر قرآن کے مخالف ہے۔
۱۴… حیات مسیح و نزول و صعود کی قرآن و عقل تکذیب کرتا ہے۔
۱۵… حیات مسیح کا عقیدہ بے ہودہ اور بے اصل اور متناقض روایات سے ہے۔
۱۶… عقل اورتجربہ اور طبعی اور فلسفہ سے بکلی مخالف ہے۔
۱۷… حیات مسیح کا نیا اور پرانا فلسفہ محال ثابت کرتا ہے۔
۱۸… حیات مسیح نہایت لغو اور بے اصل مسئلہ ہے۔
۱۹… حیات مسیح کا عقیدہ رکھنا الحاد و تحریف قرآن ہے۔
۲۰… حیات مسیح کا عقیدہ رکھ کر توفی کا معنی موت نہ کرنا سب سے بڑھ کر حماقت ہے۔
۲۱… اس مسئلہ کو مان کرآنحضرتﷺ کی سخت توہین اور بے حرمتی ہوتی ہے۔ میں ایک لحظہ کے لئے اس ہجو کوگوارہ نہیں کر سکتا، الخ۔ (بدر ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء ص۷ کالم نمبر۲، قریب منہ ص۸کالم نمبر۲)