بٹالہ ضلع گورداسپور نے جو اپنے تئیں مولوی ابو سعید محمد حسین کر کے مشہورکرتا ہے۔ اس اختلاف رائے کے سبب سے جو بعض جزئی مسائل میں وہ اس عاجز کے ساتھ رکھتا ہے، الخ۔
اور (ازالہ اوہام ص۴۶۱، خزائن ج۳ ص۳۴۷)میں دوسرے مسلمانوں کو مسلمان ہی سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ حیات مسیح کے ہی قائل تھے اور پھر میاں عبدالحق اور مولوی محی الدین کو باوجودیکہ وہ مرزا کو کافر و ملحدو (ص۶۲۸، خزائن ج۳ ص۴۳۸) جہنمی کہتے تھے۔ مسلمان(ص۶۳۷، خزائن ج۳ ص۴۴۳،۴۴۴) ہی خیال کرتا تھا۔ ملاحظہ ہوں حوالہ جات (ص۴۶۱، خزائن ج۳ ص۳۴۶،۳۴۷) اگر اب بھی ہمارے مخالف الرائے مولوی صاحبان ماننے میں نہیں آتے تو ہم انہیں مخطی ہونے کی وجہ سے مباہلہ کے لئے نہیں بلاتے۔ کیونکہ اگر اختلافات باہمی کی وجہ سے مسلمانوں کا باہم مباہلہ جائز ہوتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں پرعذاب نازل ہونا شروع ہوجائے۔
(ازالہ ص۵۹۵، خزائن ج۳ ص۴۲۱)اب کیا یہ انسانیت ہے یا ہمدردی اور ترحم میں داخل ہے کہ طریق تصفیہ یہ ٹھہرایا جائے کہ تمام مسلمان کیا آئمہ اربعہ کے پیرو اور کیا محدثین کے پیرو اور کیا متصوفین ان ادنیٰ ادنیٰ اختلافات کی وجہ سے مباہلہ کے میدان میں آکر ایک دوسرے پر لعنت کرنا شروع کر دیں۔
(ص۶۶۰، خزائن ج۳ ص۴۵۶)اگر اب بھی تمہیں شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ جزوی اختلافات کی وجہ سے تعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔ (ص۶۳۷، خزائن ج۳ ص۴۴۳،۴۴۴)میاں عبدالحق نے مباہلہ کی درخواست بھی کی تھی۔ لیکن اب تک میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسے اختلافی مسائل میں جن کی وجہ سے کوئی فریق کافر یا ظالم نہیں ٹھہر سکتا۔ کیونکہ مباہلہ جائز ہے اور پھر وہ خود رقمطراز ہے کہ مرزا سے پہلے یہ حیات مسیح کا عقیدہ ایک اجتہادی غلطی تھی، جو قابل گرفت نہ تھی۔ دیکھو (حقیقت الوحی ص۳۰ حاشیہ، خزائن ج۲۲ص۳۲)اور مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر اس امت میں سے کسی نے یہ خیال بھی کیا کہ حضرت مسیح دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ صرف اجتہادی خطاء ہے۔
(مثلہ الاستفتاء ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰، لیکچرسیالکوٹ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۲۱۸)
بلکہ یہ مسئلہ ایسا تھا کہ جس کا پورا علم صحابہؓ کو اور آنحضرتﷺ کو بھی نہ تھا۔ دیکھو (ازالہ اوہام ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳،حمامۃ البشریٰ ص۱۸، خزائن ج۷ ص۱۹۷)ان تمام حوالہ جات کو پہلے اجماع کو توڑنے کی وجہ سے سادس میں ذکر کیا جا چکا ہے۔