تفسیر ہے۔ تطہیر کا وعدہ آنحضرتﷺ کی بعثت سے ہوا یا خود مرزا سے معرض ظہور میں آیا۔ لیکن چوتھا وعدہ ’’وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو‘‘اس سے پہلے ہو چکا ہے۔ کیونکہ چوتھے وعدہ کا مفہوم ہے کہ تیرے ماننے والوں کوتیرے منکروں پر غلبہ دوں گا اور وہ تو آنحضرتﷺ سے پہلے قسطنطین اوّل کے زمانہ سے پورا ہو گیا ہے۔ اب اس کی دلیل کہ تطہیر کا وعدہ آنحضرتﷺ سے پورا ہوا۔
دیکھو(حمامۃ البشریٰ ص۵۶، خزائن ج۷ص۲۵۸)’’وھٰکذا وعد مطہرک من الذین کفرواوقع وتم ببعث النبی ﷺ الخ‘‘
اوراس کا حوالہ تطہیر کا وعدہ مرزا کے آنے سے پورا ہوا۔( مسیح ہندوستان میں ص۵۲، خزائن ج۱۵ ص۵۴) اور مطہرک کی پیش گوئی میں یہ ارشاد ہے کہ ایک زمانہ وہ آتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان الزاموں سے حضرت مسیح کو پاک کرے گا اور یہی وہ زمانہ ہے،الخ۔
اور اس کا حوالہ کہ چوتھا وعدہ سلطنت کا ہے۔ دیکھو (تحفہ گولڑویہ ص۸۴، خزائن ج۱۷ ص۲۳۱)’’وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ‘‘
یعنی اے عیسیٰ خدا تیرے حقیقی تابعین کو جو مسلمان ہیں اور ادعائی تابعین کو جو عیسائی ہیں۔ ادعائی طور پرقیامت تک ان لوگوں پر غالب رکھے گا جو تیرے دشمن اور منکر اور مکذب ہیں۔ (مثلہ ص۱۳۷)پس ثابت ہوا کہ چوتھا وعدہ آنحضرتﷺ سے یا مرزا سے قبل ہو چکا ہے اور تیسرا وعدہ آنحضرتﷺ یا مرزا کے زمانہ میں پورا ہوا۔ پس ان دو میں بھی ترتیب باقی نہ رہی۔
نیز مرزا خود کہتا ہے کہ اگروعدہ رفع پورا ہو چکا ہے تو وعدۂ وفات بھی بلا توقف پورا ہونا چاہئے۔ دیکھو (آئینہ کمالات اسلام ص۴۰، خزائن ج۵ص۴۶)ماسوا اس کے یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خد ا تعالیٰ کا وعدہ کہ میں ایسا کرنے کو ہوں، خود یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ وہ وعدہ(وفات) جلد پوراہونے والا ہے اور اس میں کوئی توقف نہیں نہ یہ کہ رفع کا وعدہ تو اسی وقت پورا ہو جائے۔ لیکن وفات دینے کا وعدہ ابھی تک جو دو ہزار برس گزر گئے ہیں، پورا ہونے میں نہ آوے۔
اب ہم کہتے ہیں کہ جب ترتیب ضروری ہے تو رفع مسیح تو واقعہ صلیبی پر ہوا کہ خدا نے لعنتی اور ذلیل موت سے بچا لیا تو وعدہ وفات رفع روحانی سے پہلے ہونا ضروری ہے۔ تو ثابت ہوا کہ حضرت مسیح واقعہ صلیبی پر تو ضرور فوت ہوئے ہوں گے۔ بلکہ اس سے قبل مرے ہوں گے۔ تو واقعہ صلیبی کے وقت سے پہلے مر گئے ہیں تو صلیب مردے کو دی گئی ہوگی اور پھر صلیب کے وقت