وہ ضرور مرے ہوئے ہوںگے۔ کیونکہ توفی کا وعدہ اس سے پہلے پورا ہونا ہے تو اب تو ثابت ہوا کہ حضرت مسیح صلیب کے وقت مردہ تھے او ر وہ یقینا لعنتی اور ذلیل موت سے مرے۔ کیونکہ مرزا خود کہتا ہے کہ اگر حضرت مسیح واقعہ صلیبی پر مرے ہوئے ہوں تو ان کی نبوت جھوٹی ٹھہرے گی اور وہ لعنتی ثابت ہوںگے۔ دیکھو (ایام الصلح ص۱۱۱،۱۱۲، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸،۳۴۹) یہودیوں کے مذہب کی رو سے جس شخص کو صلیب کے ذریعے قتل کیا جائے۔ خدا کی لعنت اس پر پڑتی ہے… خدانخواستہ اگر واقعہ صلیبی وقوع میں آ جاتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایک ایسا داغ ہوتا کہ کسی طرح ان کی نبوت درست نہ ٹھہر سکتی۔
اب نتیجہ یہ ہوا کہ واقعہ صلیبی پر جب کہ رفع روحانی ہوا تو اس سے پہلے وفات ثابت ہوئی ہوگی۔ کیونکہ ترتیب ضروری ہے تو پھر وہ لعنتی موت سے مرے ہوں گے اور ان کی نبوت میں بھی شک پڑ کیا ہو گا۔
مزیں برآں یہ کہ مرزا کو خود (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۵۵۷، خزائن ج۱ ص۶۶۴ حاشیہ)میں یہی الہام ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی، الخ‘‘ کا ہوا ہے۔ اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ تیرے چاروں وعدوں میں بھی ترتیب ضروری ہے یا نہیں اور پھر جب اپنا الہام آیا تو اس میں اب متوفیک کا معنی پوری نعمت دینے والا کیوں کر لیا۔ اس لئے کہ کہیں اپنی موت نہ ثابت ہو جائے۔
تیرے اپنے اس الہام میں بھی یقینا توفی او ر رفع میں ترتیب باقی نہیں۔ کیونکہ تیرا رفع روحانی تیرے زعم میں لیکھرام کے قتل کے وقت ہوا جب کہ ہنود نے تجھ پر اس کے قتل کا الزام لگایا اور خدا نے تجھ کو اس سے بری کر کے تیرا رفع روحانی کیا۔
دیکھو (سراج منیر ص۴۲، خزائن ج۱۲ ص۴۹ ملخص)کہ یہ تفسیر رافعک الی کی ہے۔ تو تیرا وفات کا وعدہ تو ابھی پورا ہی نہ ہوا تھا اور رفع روحانی کا وعدہ پورا ہو گیا۔ تو تیرے اپنے دونوں وعدوں میںبھی یقینا ترتیب مفقود ہے۔ کیونکہ رفع تو قتل لیکھرام کے جرم سے برأت کے وقت ہوا اور وفات بہت سال بعد میں جا کر ہوئی۔ پس اس لحاظ سے مرزا بھی قرآن مجید اور اپنے الہامات کا تحریف کرنے والا ثابت ہو گیا۔
خبط عشواء
مرزا قادیانی وفات مسیح میں عجیب خبط عشواء سے کام لیتا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ حضرت