۱… مرزا ’’سراج منیر‘‘ میں کہتا ہے کہ حضرت مسیح کا رفع روحانی تب ہوا۔ جب کہ ان کو یہود کے ہاتھوں سے واقعہ صلیبی میں بچایا گیا۔ دیکھو (سراج منیر ص۲۰حاشیہ،خزائن ج۱۲ص۲۳) ’’یا عیسیٰ انی متوفیک‘‘جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے اس وقت خوب معنی کھلے ہیں۔ یعنی یہ الہام حضرت عیسیٰ کو اس وقت بطور تسلی ہواتھا۔ جب کہ یہود ان کے مصلوب کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس جگہ بجائے یہود ہنود کوشش کر رہے ہیںاور الہام کے یہ معنی ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا۔ (سراج منیر ص۳۷،۳۸، خزائن ج۱۲ ص۴۴) میں ہے غرض اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو ایسے اضطراب کے زمانہ میں تسلی دی…
اس میں ایک باریک اشارہ ہے کہ اس عاجز کو بھی ایسا واقعہ پیش آئے گا… یعنی ایسے منصوبے جو قتل کے کئے جاویں گے وہ کب اور کس وقت میں ہوں گے اور کن امور کا اس سے پہلے ظاہر ہونا ضروری ہے۔ سو اسی الہام کے بعد میںجو الہام ہے۔ اس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کواٹھاؤں گا۔
(یہ رافعک الی کی تفسیر ہے)
دنیا میں ایک نذیر آیا…اس الہام میں اﷲ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرمادیا کہ قتل کی سازشوں کا وقت وہ ہوگا کہ جب ایک چمک دار نشان حملہ کی صورت پر ظاہر ہوگا،الخ۔
اب اس سے ظاہر ہوگیا کہ واقعہ صلیبی سے بچانا اسی کا نام رافع روحانی ہے اور توفی کا معنی اگر موت مراد ہے۔ جیسے مرزا کہتا ہے تو پھر توفی کا وعدہ قریباً ۸۷ سال بعد کو ہوا۔ کیونکہ واقعہ صلیبی حضرت مسیح کو تقریباً۳۳ سال کی عمر میں پیش آیا۔ (تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷، خزائن ج۱۷ص۳۱۱) واقعہ صلیب اس وقت حضرت مسیح کو پیش آیاتھا جب آپ کی عمر صرف تینتیس برس اور چھ مہینے کی تھی۔
اور وفات آپ کی بقول مرزا ایک سو بیس برس کی عمر میں ہوئی۔ (ایام الصلح ص۱۴۳، خزائن ج۱۴ص۳۸۸)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس برس کی ہوئی تھی۔ محدثین نے اس حدیث کو اوّل درجہ کی صحیح مانا ہے۔
اب یہ ثابت ہواکہ وفات تو ہوئی ۱۲۰ سال کی عمر میں اور رفع روحانی ہوا، ۳۳ برس کی عمر میں تو رفع روحانی پہلے ہوا اور وفات اس کے بہت مدت بعد قریباً۸۷ سال کے بعد تو رفع اور توفی میں بھی ترتیب بدل گئی اور تحریف قرآن ہوئی۔
۲… اور تیسرے وعدہ اور چوتھے وعدہ میں بھی باقرار مرزا ترتیب باقی نہیں۔ کیونکہ اس کی