ہیں۔ ان کا حال آپ پر روشن ہے۔ آنحضور ﷺ نے اپنے مابعدآنے والوں کے لئے جو بشارات دی ہیں۔ وہ خلفاء کے نام کی دی ہیں۔ مجددین کے نام کی دی ہیں اور آنے والے مسیح ابن مریم کے لئے اور باقی بس۔
مگرمرزائی صاحبان ہیں جو خلاف قرآن مجید، احادیث نبویہ اور اجماع امت دیدہ دلیری سے کام لے کر مشکوک اورظنی وفرضی حوالہ جات کے ساتھ اجرائے نبوت کے لئے ہر وقت ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں۔ کہیں حضرت عائشہ ؓ کے قول سے استنباط کرتے ہیں۔ کہیں سلف صالحین ابن عربی ؒ وغیرہ کے اقوال سے اپنے دلائل کو تقویت دیتے ہیں اورکہیں علماء کرام مولانا رومؒ کی تحریرات سے آڑ پکڑتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ جملہ اقوال جو نص قرآنی اوراحادیث نبویہ کے صریح خلاف ہوں۔ سب ناقابل تسلیم ہوتے ہیں۔ سب سے اول قرآنی فیصلہ ناطق ہوتا ہے اور اس کے بعد حدیث نبوی۔
اگر کسی حدیث نبوی کا مفہوم قرآنی آیت کے خلاف ہو تو وہ حدیث نبوی بھی متروک سمجھی جائے گی۔ کیونکہ حدیث علم ظنی ہے اور قرآن ناطق اور نص یقینی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ امام ہمام حضرت ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کا سب سے پہلا قائم کردہ زریں اصول یہ ہے کہ : ’’جو حدیث قرآن کے مضمون کے خلاف ہوگی، اس کی وقعت اس حدیث کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہوسکتی۔ جو قرآن کے موافق ہو۔ بلکہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہوگی وہ متروک سمجھی جائے گی اور ہر حدیث کی صحت قرآن کی مطابقت پر موقوف ہے۔ صحیح حدیث پر عمل کرنا میرا ہی مذہب ہوگا۔ اگر میرا قول کسی حدیث نبوی کے خلاف پایا جاوے تو اس کو دیوار پر مار چھوڑو۔‘‘
(عقد الجید مطبوعہ فاروقی دہلی ص۶۶، ۶۷ روضتہ العلمائ)
یہ زریں اصول مذکورہ بالا عین مطابق فرمان نبوی کے ہے۔ جو درج ذیل ہے: ’’حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول خد اﷺ نے میرا کلام منسوخ نہیں کر سکتا اﷲ کے کلام کو اور اﷲ کا کلام منسوخ کر سکتا ہے میرے کلام کو اور کلام اﷲ نسخ کرتا ہے بعض اس کا بعض کو۔‘‘(دارقطنی)
پس ثابت ہوا کہ جب ختم نبوت قرآن اورحدیث سے صاف صاف واضح ہے۔ تو پھر اقوال صحابہ اور اقوال سلف و صالحین اوراقوال علماء کرام سے استنباط کرنا اور اجرائے نبوت کے لئے