مصطلحہ ارباب تفسیر و حدیث کے نزدیک کیا ہیں۔ یہی کہ اس سے وفات مسیح نہ ثابت کی جائے۔ یہی صحابہ و تابعین و تبع تابعین نے معنی کئے ہیں اور ان کا خیال نزول مسیح بجسمہ کا تھا۔ جس کا مرزا خود اقراری ہے کہ یہ وفات مسیح یا نزول مسیح روحانی کا مسئلہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ صرف مجھے ہی معلوم ہوا۔ حتیٰ کہ آنحضرتﷺ کو بھی اگر معلوم نہ ہو تو کوئی بعید نہیں۔ (دیکھو ازالہ اوہام ص۱۱۸۲،۳۶۴) اگر آنحضرتﷺ پر ابن مریم علیہما السلام اور دجال کی حقیقت کاملہ…اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کما ہی ظاہر فرمائی گئی ہو… تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)
’’فتوجہت عنایتہ لتعلیمی وتفہیمی والہمت وعلمت من لدنہ ان النزول فی اصل مفہومہ حق ولکن مافہم المسلمون حقیقتہ لان اﷲ تعالیٰ ارادا خفائہ… فصدف وجوھھم عن الحقیقۃ الروحانیۃ الی الخیالات الجسمانیۃ…وبقی ہذاالخبر مکتوما مستورا کالحب فی السنبلۃ قرنا بعد قرن حتیٰ جاء زماننا ہذا فکشف اﷲ الحقیقۃ علینا… فاخبر نی ربی ان النزول روحانی لاجسمانی‘‘
تو پھر یقینا صحابہ کرامؓ اور اس کے بعد کے علماء و سلف نے اور آنحضرتﷺ نے نزول مسیح سے مراد جسمانی نزول ہی سمجھا ہوگا اور نزول فرع صعود ہے۔ (حمامۃ البشریٰ ص۳۲، خزائن ج۷ ص۲۱۶) مرزاخود تسلیم کرتا ہے کہ وہ مردہ کی توفی سے مراد موت ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کسی کی موت ثابت ہو جائے اور اس کو مردہ ثابت کر دیں تو اس پر جو توفی کا لفظ وارد ہو گا اس کا معنی موت ہو گا۔(دیکھو ضمیمہ حصہ پنجم حاشیہ ص۲۰۵،خزائن ج۲۱ص۳۷۷)اسی بناء پر لسان العرب اور تاج العروس میں لکھا ہے۔
’’توفی المیت استیفاء مدتہ التی و فیت لہ وعدد ایا مہ و شھورہ و اعوامہ فی الدنیا‘‘یعنی مرنے والے کی توفی سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبعی زندگی کے تمام دن اور مہینے اور برس پورے کئے جائیں۔
اب اس قول مرزا سے مطلب صاف ظاہر ہے۔ لہٰذا جب تک پہلے مسیح کو مردہ ثابت نہ کر لیں، تب تک توفی کے لفظ سے استدلال کرنا بالکل غلط ہوگا اور متوفیک کی آیت وفات مسیح پر دال نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ تو زندہ کی توفی ہے نہ کہ مردہ کی اور تمام امور کے تسلیم کرنے کے بعد ہم مرزا سے کہتے ہیں کہ اگر ابن عباسؓ نے توفی کا معنی موت ہی کیا ہے اور متوفیک بمعنی ممتیک ہے اور وہ روایت صحیح بھی ہو اور آیۃ میں تقدیم و تاخیر بھی نہ مانی جاوے(حالانکہ یہ سب غیر مسلم امور ہیں) تو