پانے والا اس ہزار کا یہ مجدد ہے اور جاننا چاہئے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد گزرا ہے۔ ہاں مجدد صدی کا اور ہے اور مجدد ہزارکااور ہے۔ جیسا کہ سو اور ہزارمیں فرق ہے۔ اسی کے مطابق صدی اور ہزار کے مجددوں میں فرق ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر اور مجدد وہ ہوتا ہے کہ اس کے زمانہ میں جس قدرفیض امتوں کو پہنچتا ہے۔ وہ اسی مجدد کے توسط سے پہنچتا ہے۔ خواہ اس زمانے کے قطب، ابدال ،اوتار اور نجیب بھی موجود ہوں۔‘‘ (مکتوبات مجدد صاحب جلد ۲ص۱۴)
دوم… حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی۔ آپ بارھویں صدی کے مجدد ہیں۔ کتاب (تفہیمات الٰہیہ ص۴۰) میں آپ کا دعویٰ مجددیت بہ تفصیل ذیل موجود ہے۔ ’’جب دور حکمت (یعنی گیارھویں صدی )انتہاء تک پہنچ چکا تو اﷲ تعالیٰ نے خلعت مجددیت سے مجھے سرفراز فرمایا او ر جب حقانیت کا خلعت مجھے پہنایا گیا اورہر نظری اور فکری علم مجھ سے زائل کر دیئے گئے۔ تو میں حیرت کے جنگل میںسرگرداں رہا کہ کیونکر میں مجددیت کی ذمہ داری سے عہدہ برآہوںگا۔ اتنے میں اﷲ تعالیٰ نے میرے لئے ایک طریق ایسا واضح کیا کہ جس سے مجددیت و حقانیت کو باہم ملادیا گیا۔جس میں اب نہ علم نظری کی ضرورت ہے اور نہ علم فکری کی حاجت۔‘‘
سوم… حضرت سید احمد ؒ صاحب بریلوی۔ آپ تیرھویں صدی کے مجدد گزرے ہیں۔ مولوی عبدالحئی صاحب دہلوی اورمولوی محمد اسمٰعیل صاحب آپ کی بیعت میں داخل تھے۔ آپ کی سعی مبارک سے کثیر التعداد مخلوق شرک اور قبر پرستی وغیرہ بد رسومات سے بیزار ہوکر خالص توحید کی شیدائی ہوگئی۔ پنجاب میں مسلمانوں پر سکھوں کے ظلم وستم دیکھ کر جناب ممدوح نے سکھوں پرچڑھائی کردی۔ چنانچہ پٹنہ و غیرہ نواح سے فوج جمع کرکے پشاور فتح کرلیا۔ لیکن درمیان میں پٹھان لوگ غداری کرکے سکھوں کے ہمراہ ہو گئے۔ اس لئے مولوی محمداسمٰعیل شاہ صاحب اور حضرت مجدد صاحب کافروں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے پشاور کے قریب مقام بالاکوٹ پر شہیدہو گئے۔
معزز قارئین!
ملک ہندوستان کے ہر سہ مجددین کے حالات آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ ان بزرگان دین کو بارگاہ رب العزت میں وجاہت اور قرب حاصل تھا۔ سینکڑوں کرامتیں ان سے ظہور میں آئیں۔ مگر ان میں سے کسی نے لقب نبوت سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کی کوشش نہیں کی۔