امت کو تاقیامت حاصاور ان سے کرامتیں اور کشف ظہور میں آئیں گے اور اگر نبی آنا ہوتا تو آنحضرت ﷺ کا یہی فیضان کسی ایک نبی کے لئے محدود ہو جاتا اور امت مرحومہ میں ضرور چھانٹ ہوتی اورنبی کے منکرین کافر کہلاتے۔ مگرکسی خلیفہ، مجدد یا امام کے انکار سے کوئی مسلمان امتی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا۔ لیکن روحانی ترقیات سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک دولت مند بھائی اپنے غریب بھائی کو جدی گھر سے نہیں نکال سکتا۔صرف فیضان بند کرسکتاہے۔
۲… ’’عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲ ﷺ ان اﷲ یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجددلھا دینھا‘‘{حضرت ابی ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے کہ بیشک اﷲ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک شخص اس امت کے لئے مبعوث کیا کرے گا جو اس کے لئے دین کی تجدید کیا کرے گا۔(ابوداؤد، سنن بیہقی، مستدرک حاکم)}
اس حدیث سے صاف عیاں ہے کہ بعد وفات حضور علیہ السلام امت مرحومہ کے لئے روحانی ترقی کا دروازہ بند نہیں۔ بلکہ دین اسلام میں جو خوبیاں واقع ہوں۔ ان کی تجدید اور اصلاح کی غرض سے ہر صدی کے سر پر آتے رہیں گے۔
چنانچہ اس پیشین گوئی کی تائید وتصدیق میں آج تک حسب ضرورت مختلف مقامات میں مجدد ہوتے چلے آئے۔ اس ملک ہندوستان میں بھی تین مشہور و معروف مجدد تین صدیوں کے سر پر گذر چکے ہیں۔ ان کے دعاوی ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔
مختصراً ان ہر سہ مجددین کے حالات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
اوّل… حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد بن عبدالاحد سرہندی جو گیارھویں صدی کے مشہور مجدد گزرے ہیں۔بادشاہ جہانگیر کے زمانے میں تجدید دین کے لئے کھڑے ہوئے۔ علماء زمانہ کے فتاویٰ کے بموجب دربار جہانگیر میں آپ کی ریش مبارک کھینچی گئی او ر ایک عرصہ تک گوالیار کے قلعہ میں مقید رکھا گیا۔ مفصل حالات آپ کی کتاب مکتوبات سے بخوبی معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس جگہ پر…صرف آپ کا ایک دعویٰ درج کیا جاتا ہے جو حسب ذیل ہے۔
’’یہ علوم نبوت کے انوار کے طاق سے حاصل ہوتے ہیں۔ جو دوسرے ہزار کی تجدید کے بعد وراثت کے طورپر تازہ ہوگئے ہیں اورتروتازگی سے ظہور پایا ہے۔ ان علوم اور معارف کا ل ہوگا