اس سے بڑھ کر بالفرض اگر تمام انبیاء کرام علیہم السلام سابقین بھی دوبارہ آجائیں۔ تو اس سے ختم نبوت اور خاتم النّبیین کے مفہوم میں کسی قسم کی خرابی نہ ہوگی۔ کیونکہ ان سب انبیاء کرام علیہم السلام کا شمار پہلے ہو چکا ہے۔ اب ان کے دوبارہ آنے سے سابقہ تعداد میں کوئی اضافہ نہ ہوگا اور آخری نبی اورخاتم النّبیین بھی آنحضرتﷺ ہی رہیں گے۔ کیونکہ ظہور کے لحاظ سے اور زمانہ کے لحاظ سے آخری نمبر پر آنحضرتﷺ کو ہی نبوت عطاء ہوئی ہے۔ آپﷺ کے بعد کسی کو نبوت عطاء نہ ہوگی۔ اسی مفہوم کو ہمارے علماء اہل اسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایاہے۔
(تفسیر روح المعانی ص۳۲ج۲۲)’’انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تحلیتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھا فی ہذہ النشاۃ‘‘ یعنی اس عالم ظہور میں آنحضرتﷺ کے منصب نبوت سے ممتاز ہو چکنے کے بعد کسی نبی کو وصف نبوت سے نہ نوازا جائے گا۔
(تفسیر خازن ص۲۱۸ج۵)’’خاتم النّبیین ختم بہ النبوۃ بعدہ‘‘ یعنی آنحضرتﷺ کے بعد اب کسی کو نبوت حاصل ہویہ نہ ہوگا۔ بلکہ نبوت ختم ہو چکی ہے۔ نہ یہ کہ پہلے انبیاء کی نبوت بھی سلب ہو گئی ہے۔
(تفسیر مدارک ص۲۱۱)’’خاتم النّبیین آخر ہم یعنی لاینبأ احد وبعدہ‘‘ مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد اب کسی کو نئی نبوت حاصل نہ ہوگی۔ کیونکہ آپ آخری نبی ہیں۔ یعنی آپ کا نمبرزمانہ اورظہور کے لحاظ سے سب سے آخری نمبر ہے۔ اگرچہ ذاتی طور پر آپ مرکز نبوت ہیںاور اوّل الانبیاء ہیں۔
پس حاصل جواب یہ ہوا کہ آنحضرتﷺ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے انبیاء کرام علیہم السلام کے شمار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جو تعداد انبیاء کرام علیہم السلام کی پہلے تھی وہی باقی رہے گی۔ لیکن مرزا قادیانی یا مسیلمہ کذاب یا ان جیسے اور مدعیان نبوت کی نبوت کو صحیح تسلیم کر نے سے خاتم النّبیین اور ختم نبوت کا مفہوم بالکل بگڑ جائے گا اور جو شمار انبیاء کرام علیہم السلام کا پہلے ہو چکا ہے۔ اس پر یقینا اضافہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ مرزا قادیانی اوراس کے یاران طریقت تمام مدعیان نبوت کا پہلے اعداد میں شمار نہیں ہوا۔ لہٰذا وہ پہلے نمبروں پر زائد ہوںگے۔ مثلاً فرض کرو کہ اگر پہلے دو لاکھ بیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کا شمار تھا تو اب اس عدد پر ایک یا دو یا تیس چالیس کا اضافہ ہو جائے گا اور آخری نمبر پھر مرزا قادیانی کا ہوگا۔ وہی خاتم الانبیاء ٹھہرے گا۔