اور کون سا نبی ہے جس کے نام پانے کامرزا نے دعویٰ نہیں کیا۔ اب معلوم نہیں کہ ہم اس کو کس کا بروز اور ظل سمجھیں۔ تحفہ قیصریہ میں وہ خود کو مسیح کا بروز کہتا ہے۔ اسی طرح آئینہ کمالات اسلام میں بھی خود کو حضرت مسیح کا صحیح جانشین سمجھتا ہے۔ اب یا تو یہ کہیں کہ مرزا کایہ کہنا کہ اصل بروز میں بالکل مغائرت باقی نہیں رہتی۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص۲۶۳)یہ محض جھوٹ ہے اور یا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں نبی کا بروز ہوں، یہ غلط ہے۔ کیونکہ اگر آنحضرتﷺ کی نبوت کا بروز ہے تو پھر حضرت مسیح وغیرہ کا بروز نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ تشریعی اور غیر تشریعی نبوتیں غیر غیر ہیں اور اگر حضرت مسیح کا بروز ہے اور اس میں یسوع کی روح ہے۔ تو پھر آنحضرتﷺ کا بروز نہیں ہوسکتا۔ ہمارے نزدیک سب غلط ہے۔
(الاستفتاء ملحقہ حقیقت الوحی ص۸۳حاشیہ،خزائن ج۲۲ص۷۰۹)میںسب انبیاء کا خود کو مسمی ٹھہراتا ہے۔’’وکک سمانی بجمیع اسماء الانبیاء من آدم الی خاتم الرسل‘‘ (وفی المتن ص۸۳،خزائن ج۲۲ص۷۰۹)’’نزلت سرر من السماء ولکن سریرک وضع فوق کل سریر‘‘
(نزول المسیح ص۲،خزائن ج۱۸ص۳۸۰مؤلفہ ۱۹۰۲ئ)’’پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اورنئے دعوے اورنئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پا کر اور اسی میں ہوکر اوراسی کا مظہر بن کر آیاہوں۔‘‘
(نزول المسیح ص۴۹،خزائن ج۱۸ص۴۲۷)’’میں مسیح موعود ہوں اوروہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نبی اﷲ رکھا ہے اور اس کو سلام کہا ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۸۲،۸۱، خزائن ج۱۸ص۴۶۰)’’جیساکہ وحی تمام انبیاء علیہم السلام کی حضرت آدم سے لے کر آنحضرتﷺ تک از قبیل اضغاث و احلام و حدیث النفس نہیں ہے۔ ایسا ہی یہ وحی بھی ان شبہات سے پاک اورمنزہ ہے اور اگر کہو کہ اس وحی کے ساتھ جواس سے پہلے انبیاء کو ہوئی تھی، معجزات او ر پیش گوئیاں ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گذشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیش گوئیاں موجود ہیں۔ بلکہ بعض گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیش گوئیوں کو ان معجزات اورپیش گوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں اورنیز ان کی پیش گوئیاں اورمعجزات اس وقت محض بطور قصوں اور کہانیوں کے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح ص۹۱، خزائن ج۱۸ص۴۶۹)’’وہ مذہب مراد ہے جس میں ہمیشہ کے لئے یقینی وحی کاسلسلہ جاری نہیں۔ کیونکہ وہ انسانوں پر یقین کی راہ بند کرتا ہے۔‘‘