جان کوہتھیلی پر رکھنے والے ہیں۔ وہ شہیدوں کے رنگ میں ہیں اور جو لوگ ان میں سے ہر ایک فساد سے باز رہنے والے ہیں۔ وہ صلحاء کے رنگ میں ہیں۔‘‘
اس عبارت کا ماحصل یہ ہواکہ دوجماعتوں میں سے ایک جماعت جو حقیقی منہم علیہم ہے۔ وہ مرزا کی امت ہے اوراس امت میں انبیاء و صدیقین وشہداء و صلحاء ہوں گے تو مرزا قادیانی نبی گر ہوا اور مرزائی معنی کے لحاظ سے خاتم النّبیین ہوا اور مرزا کے اتباع سے انبیاء پیدا ہوئے۔
تنبیہ… بلکہ مرزائیوں نے خاتم النّبیین کا جو معنی کیاہے۔ اس کے معنی کے لحاظ سے آنحضرتﷺ خاتم النّبیین نہیں ٹھہر سکتے۔ البتہ بزعم مرزا قادیانی حضرت موسیٰ علیہ السلام خاتم النّبیین ٹھہریں گے اور یہ لفظ خاتم النّبیین کا آنحضرتﷺ سے ہٹ کر موسیٰ علیہ السلام پر صادق آئے گا۔ کیونکہ آنحضرتﷺ کی اتباع سے تو بقول مرزا قادیانی (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ص۴۰۶)و بقول محمود قادیانی (ضمیمہ حقیقت النبوت ص۱۳۸) صرف ایک ہی نبی پیدا ہوا۔ یعنی مرزا قادیانی اوروہی ایک بروز شروع سے امت محمدیہ میں مقدر تھا۔ بقول مرزا قادیانی: ’’ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا۔ سو وہ ظاہر ہو گیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ، ضمیمہ حقیقت النبوۃ ص۲۶۸)
لیکن اس کے بالمقابل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی اور اتباع سے بہت سے نبی ان کے تابع اور خادم پیدا ہوئے اور ان کے کئی ایک بروز دنیا میں تشریف لائے۔ ملاحظہ ہوں مرزا قادیانی کی وہ عبارتیں جن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتباع سے انبیاء کا آناثابت ہوتا ہے۔
(ازالہ اوہام ص۴۱۷،خزائن ج۳ص۳۱۷)’’موسیٰ کی وفات کے بعد موسوی قوت اور موسوی روح اس کے شاگرد یوشع کو عطاء ہوئی اور وہ خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے نفخ روح سے موسیٰ میں ہوکر اور موسوی صورت پکڑ کر وہ کام بجالایا جو موسیٰ کا کام تھا۔سو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ موسیٰ ہی تھا۔ کیونکہ اس نے موسیٰ میںہوکر اور موسیٰ کی پیروی میں پوری فضا اختیار کرکے اور خدا تعالیٰ سے موسوی روح پاکر اس کام کو کیاتھا۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۶۷ حاشیہ، خزائن ج۲۰ص۳۸۱،۳۸۲)’’یہ لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں۔ ہمارے سید و مولیٰ خیر الرسل و افضل الانبیاء آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتے ہیں۔ جبکہ کہتے ہیں کہ اس امت میں عیسیٰ بن مریم کا مثیل کوئی نہیں آسکتا تھا۔ اس لئے ختم نبوت کی مہر کوتوڑکر اسی اسرائیلی عیسیٰ کو کسی وقت خدا تعالیٰ دوبارہ دنیا میں لائے گا اور اس اعتقاد سے صرف ایک گناہ نہیں،