ہے۔ اس کے عقیدہ میں تو نبوت صرف مرزا کے لئے ہی مخصوص ہے۔ مگر امت اس قدر فیاض واقع ہوئی ہے کہ وہ کہیں نبوت کی حد بندی ہی نہیںکرتی اور مرزا قادیانی ہی نہیں۔ بلکہ اس کا بیٹا محمود قادیانی بھی بعض جگہ یہی لکھ گیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد میرا ابا ہی نبوت سے فائز ہوا ہے۔ تو گویا خلیفہ ثانی بھی طائفۂ قادیانیہ کے خلاف ہے۔
ملاحظہ ہوں اقوال مرزا قادیانی (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ص۴۰۶)
’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ایک ہی فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیاگیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس کے مستحق نہیں… اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا تھا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا۔ وہ پیش گوئی پوری ہو۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ،ضمیمہ حقیقت النبوۃ ص۲۶۸) چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا۔ وہ میںہوں۔ اس لئے اس بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطاء کی گئی اور اس نبوت کے مقابل اب تمام دنیا بے دست وپا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے اور ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا۔ سو وہ ظاہر ہوگیا۔ اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں۔‘‘
محمود قادیانی کی بھی عبارت ملاحظہ ہو۔ (حقیقت النبوت ص۱۳۸)
’’اس لئے ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں… پس ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی نہیں گزرا۔‘‘
الحاصل… نبوت کے اجارہ دار باپ بیٹا تو نبوت کو صرف مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے ہی مانتے ہیں۔ لیکن ان کی امت نے نبوت کا پھاٹک ایسا کھول دیا کہ جو شخص بھی آئے۔ بیشک دعویٔ نبوت کرتا جائے۔ کیونکہ کوئی قادیان سے خصوصیت نہیں۔
تصویر کا دوسرا رخ
ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کربیٹھیں کہ گذشتہ اقوال سے تو یہ ثابت ہوا کہ واقعی مرزا قادیانی ختم نبوت کا قائل ہے۔ تو پھر اس کے ذمہ دعویٔ نبوت کا الزام قائم کرنا شاید ظلم ہوگا اور وہ درحقیقت مدعیٔ نبوت نہیں۔ اس لئے میں نے چاہا کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے رکھ