عام ہے جونبی کو اورمحدث ومجدد ہر دو کو شامل ہے۔ دیکھو (شہادۃ القرآن ص۲۸، خزائن ج۶ص۳۲۳)
’’رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں۔چونکہ ہمارے سید و رسول ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرتﷺ کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۲، خزائن ج۵ص ایضاً)
’’رسول کا لفظ عام ہے۔ جس میںرسول او ر محدث اور نبی داخل ہیں۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۷حاشیہ،خزائن ج۱۴ص۴۱۹)’’رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہوں۔ خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث اورمجدد ہوں۔‘‘
پس سب اس قسم کی آیات کا ایک ہی جواب کافی ہے کہ بالفرض اگر اس امت میں رسول آنے ہی ہیں اور مراد آیات سے وہی معنی محرف ہیں۔ جو تم ارادہ کرتے ہو تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ آنحضرتﷺ کے بعد رسول آویں گے ۔ یعنی مجد د و محدث آویں گے۔
شبہ یاز دہم… کبھی کبھی آیت ’’واذاخذ اﷲ میثاق النّبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ (آل عمران:۸۱)‘‘اور آیت ’’واذاخذنا من النّبیین میثاقھم ومنک ومن نوح (احزاب:۷)‘‘ سے بھی استدلال کیا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سب انبیاء سے حتیٰ کہ آنحضرتﷺ سے بھی ایک رسول کے آنے کا واقعہ پیش کرکے اس کی تصدیق کرنے کا اور اس رسول کو ماننے کا وعدہ لیا جارہا ہے۔ وہ رسول کون ہوگا۔ جو سب انبیاء اور آنحضرتﷺ کے بعد آنے والا ہے۔ وہ مرزا غلام احمدقادیانی ہی ہے۔ نعوذ باﷲ!
الجواب… ہر دو آیات میں جس چیز کا خدا تعالیٰ سے وعدہ لے رہا ہے انبیاء وہ غیر غیر چیزیں ہیں۔ پہلی آیت لیں تو ایک بہت بڑی عظیم الشان نبی کی تصدیق کا وعدہ لیا جارہا ہے۔ جو آیت بتلارہی ہے کہ وہ نبی اعلیٰ منصب رکھتا ہوگا۔جس کے لئے اﷲ تعالیٰ انبیاء کرام سے تاکیدی طور پر اس پر ایمان لانے کا وعدہ انبیاء کرام سے لے رہا ہے اور جس کی امداد کے لئے سخت تاکید فرمائی جارہی ہے۔ وہ تو آنحضرتﷺ ہی ہو سکتے ہیں۔
مرزاجیسے دجال کو اس میثاق و وعدہ کا مصداق ٹھہرانا جس قدر بعید از عقل و نقل ہے۔ اس قدر دنیا میں اورکوئی ظلم ہی نہیں ہو سکتا۔ پھر خود مرزا قادیانی بھی اس ’’ثم جاء کم رسول‘‘ سے مراد آنحضرتﷺ کو سمجھتا ہے۔ ملاحظہ ہو (حقیقت الوحی ص۱۳۰،۱۳۱، خزائن ج۲۲ص۱۳۳،۱۳۴)