رہے۔ اب اگر خلفاء نبی نہ آویں اوروقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلادیں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے۔
مرزا غلام احمدقادیانی کی عبارت صاف بتلا رہی ہے کہ خلفاء سے مراد نبی نہیں۔ بلکہ انبیاء کے جانشین مراد ہیں۔ جو وہ نبی نہ ہوںگے۔ کیونکہ اس امت میں اب نبی نہیں آسکتے۔ بلکہ انبیاء کے خلفاء آئیںگے۔
شبہ سوم
بعض اوقات امت مرزائیہ قادیانیہ آیت ’’ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس‘‘ سے ثابت کیا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ آنحضرتﷺ کے بعد بھی نبوت جاری ہے۔
الجواب
مرزاغلام احمد قادیانی نے نور القرآن نمبر اوّل میں اسی آیت پر بحث کرتے ہوئے اسی آیت کو دیکھ بھال کر اس کی تفسیر کی۔ مگر دروازۂ نبوت کو مسدود خیال کر رہا ہے۔
ملاحظہ ہو (نور القرآن نمبراول ص۵تا۷ مع حاشیہ، خزائن ج۹ص۳۳۶،۳۳۹)’’ظہر الفساد فی البر والبحر…‘‘ قرآن کریم نے تو تمام زمین کے مر جانے کا ذکر کیا ہے اور تمام قوموں کی بری حالت کو وہ بتلانا ہے اورصاف بتلاتا ہے کہ زمین ہر قسم کے گناہ سے مرگئی۔‘‘ اور (ص۷)کے حاشیہ میں لکھتا ہے :’’اگر کوئی کہے کہ فساد اوربدعقیدگی اوربد اعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں۔ پھر اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیا؟ تو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ توحید اور راست روی سے بالکل خالی ہو گیا تھا اور اس زمانہ میں چالیس کروڑ لاالہ الااﷲ کہنے والے موجود ہیں اور اس زمانہ کو بھی خداتعالیٰ نے مجدد کے بھیجنے سے محروم نہیں رکھا۔‘‘
الحاصل! مرزا قادیانی کے زیر نظر یہی کتاب ہے۔ مگر پھر مرزائی اسی آیت کے ماتحت نبوت کی عدم ضرورت کو بیان کر رہا ہے اور ختم نبوت کا قائل ہے۔ مرزائیہ قادیانیہ طائفہ اس سے نفی ختم نبوت کرنا چاہتا ہے۔ مگر ان کا پیر و مرشد ختم نبوت ثابت کر رہا ہے۔
معلوم نہیں کہ سچا کون ہوگا اور جھوٹا کون۔ ہاں یقینا ان کے متنبی کامرتبہ ان سے اعلیٰ ہے۔ اس لئے امت کو کوئی حقیقت متنبی کے سامنے نہیں۔
شبہ چہارم… طائفہ قادیانیہ کیونکہ ختم نبوت کا منکر ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تحریف کرتے ہوئے آیت ’’ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ