سے ابھی میں نے بیان کیا ہے۔ پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے۔ جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں۔ وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے۔ مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے۔‘‘
(ص۲۶۱)کی عبارت بالکل واضح ہے کہ مرزا قادیانی خود اپنی کسی غلطی کا ازالہ کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ بلکہ اپنے مریدوں کی غلطی کاازالہ کرنا چاہتا ہے۔ (یہ دوسری بات ہے کہ خود بھی بات صاف نہیں کرتا۔ نہ اس جگہ اقرار نبوت کرتا ہے نہ انکار نبوت کرتا ہے۔ جیسے کہ صفحہ ۲۶۱ اورص ۲۶۹ کی عبارتیں نفی و اثبات پر دلالت کرتی ہیں)
اور وہ کہتا ہے کہ لوگ ابھی تک میری مرا د کو نہیں سمجھے اور خواہ مخواہ انکار کر دیتے ہیں کہ مرزا نے دعویٰ نبوت نہیں کیا۔ یہ ان کی اپنی جہالت اور ناواقفیت کی دلیل ہے اور خود وہ غلطی کر رہے ہیں۔ (ص۲۶۳،۲۶۴)کی عبارتیں بتلاتی ہیں کہ مرزا خود کو ظلی یا بروزی نبی سمجھتا ہے اور خود کو آنحضرتﷺ کا بالکل عکس یا عین سمجھتا ہے۔ نعوذباﷲ تعالیٰ۔ گویا مرزا نبی ہے اورآنحضرتﷺ کا متبع یعنی ظلی نبی یا بروزی نبی یا بالفاظ دیگر امتی نبی اور (ص۲۶۹)سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بروزی،ظلی اور امتی نبی بننا چاہتا ہے۔ نیز یہ کہ مرزا نے اپنے سابقہ عقیدہ میں کوئی کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی۔ جس نبوت کا وہ پہلے دعویٰ کرتا تھا(ظلی، بروزی، امتی نبی) اسی کا اب بھی مدعی ہے اور معنی کا اس نے اپنی کسی کتاب میں کسی تحریر میں کہیں کسی زمانہ سابقہ میں انکار نہیں کیا۔
پھر بیٹے محمود کا تبدیلی عقیدہ کا دعویٰ کرنا بالکل غلط ہوا اور تمام کی تمام عمارت محمود قادیانی کی بنی بنائی گر گئی۔ اب میں یہ بھی ثابت کردوں کہ مرزا قادیانی آج سے پہلے بروزی نبی یا ظلی نبی یا امتی نبی کا معنی کیا کرتارہا ہے۔ کیا اس کا معنی اصلی واقعی حقیقی، سچا نبی کرتا رہا ہے کہ جس کا منکر کافر ہو جاتا ہے۔ جس معنی سے محمود اس کو نبی مانتا ہے یا صرف اس کا معنی محدث اورمجدد کرتارہا ہے۔ جو ختم نبوت کے بالکل منافی نہیں اور نہ ہی مرزا نے اس کو ختم نبوت کے منافی سمجھا۔
ملاحظہ ہوں عبارات مرزا قادیانی
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۳۷، خزائن ج۵ص۲۳۷)’’جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء الوراء ہوجاتا ہے اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے۔ جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کوملے تھے اورانبیاء اور رسل کا وارث او ر نائب ہو جاتا ہے۔ وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔ وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے۔