کے کسی اعتراض پرایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسرواقع کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے۔ وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض۱؎انکار کے الفاظ سے دیاگیا ہے۔ حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔‘‘
کتاب مذکور (ص۲۶۳)’’اگر کوئی شخص اس خاتم النّبیین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اس کا نام پالیا ہو اورصاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہوگیا تو وہ بغیرمہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے گوظلی طورپر۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طورپر محمد اوراحمد رکھا گیا۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النّبیین۲؎ ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمدﷺ کی تصویر اوراسی کا نام ہے۔سو یاد رکھنا چاہئے کہ ان معنوں کی روسے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے۔‘‘
(ص۲۶۴)’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے۔ صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پرنبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کرکے اوراپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طورکا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔
(ص۲۶۹)’’مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں۔ میںاس طور سے جو وہ خیال۳؎ کرتے ہیں۔ نہ نبی ہوں، نہ رسول ہوں۔ ہاں میں اس طور سے نبی اور رسول ہوں۔ جس طور
۱؎ جیسے (حمامۃ البشریٰ ص۸۳، خزائن ج۷ ص۳۰۲) میں خود مرزا قادیانی نے انکار محض میں جواب دیا تھا۔
۲؎ معلوم ہوا کہ ابھی تک خاتم النّبیین کا معنی نبیوں کو ختم کرنے والا ہی مرزا کے خیال میں بھی ہے۔
۳؎ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۲ میں مرزا مانتا ہے کہ میری قوم کے خیال میں نبوت غیر تشریعی بھی جاری نہیں اور مرزا اس جگہ یہ کہتا ہے کہ وہ نبوت مراد نہیں جو لوگ سمجھتے ہیں۔ یعنی نہ نبوت تشریعی کا دعویٰ ہے نہ غیر تشریعی کا۔