اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے۔ اس میں محدثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے۔ حقیقت ایک ہی ہے۔ لیکن بباعث شدت اور ضعف رنگ کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام طبع اول ص۵۳۲،۵۳۳، خزائن ج۳ص۳۸۶)’’ہاں یہ بھی سچ ہے کہ آنے والا مسیح کو نبی کرکے بھی بیان کیاگیا ہے۔ اگر اس کو امتی کرکے بھی بیان کیاگیا…وہ واقعی اور حقیقی طور پر نبوت تامہ کی صفت سے متصف نہیں ہوگا۔ ہاں نبوت ناقصہ اس میں پائی جائے گی۔ جو دوسرے لفظوں میں محدثیت کہلاتی ہے…جیساکہ محدث میں ان دونوں شانوںکا پایا جانا ضروری ہے۔‘‘
ان دونوں اقوال سے ثابت ہوا کہ مرزا کے زعم میں محدث ہی ہے جو امتی اورنبی کہلاتا ہے اور وہی ظلی نبی اور مجازی نبی اور بروزی نبی کے نام سے مرزا کی اصطلاح میں موسوم ہوتا ہے اور اس نبوت سے موسوم نہیں ہوتا۔جو نبوت کا صحیح معنی ہے۔ جو صحیح اوراصلی اورسچا اورحقیقی اور واقعی نبوت کا مصداق ہے۔ ازالہ اوہام ۱۸۹۱ء کی تالیف ہے اور آئینہ کمالات اسلام ۱۸۹۳ء کی تالیف ہے۔ چنانچہ انہی ایام کی تالیف اس سے زیادہ واضح الفاظ میں جنگ مقدس ہے جو ۱۸۹۳ء کی کارروائی مناظرہ عبداﷲ آتھم پرمشتمل ہے۔ جنگ مقدس میں مرزا قادیانی نے صاف لکھا ہے کہ میرا دعویٰ نبوت کا نہیں۔ علی ہذاالقیاس حمامۃ البشریٰ میں بھی یہی مرقوم ہے کہ میری عبارات میں سے کوئی ایسی عبارت، کوئی ایسا کلمہ بھی نہیں۔ جس میں نبوت کے دعویٰ کی بو تک بھی ہو۔ ملاحظہ ہو عبارت جنگ مقدس بالفاظ مرزا:
(ص۶۷، خزائن ج۶ص۱۵۶)’’میں ایک مسلمان آدمی ہوں۔ جو قرآن شریف کی پیروی کرتا ہوں اورقرآن شریف کی تعلیم کی روح سے اس موجودہ نجات کا مدعی ہوں۔ میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں۔ یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ نبی بھی ہو جائے۔ میں تو محمدی اورکامل طور پر اﷲ ورسول کا متبع ہوں اور ان نشانوں کا نام کرامات ہے۔‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۸۳، خزائن ج۷ص۳۰۲)’’فلاتظنن یا اخی انی قلت کلمۃ فیہ رائحۃ ادعاء النبوۃ۔‘‘ترجمہ کا ماحصل یہ ہے کہ اے بھائی! میں نے کوئی ایسا کلمہ تک نہیں کہا جس میں دعویٔ نبوت کی بو تک بھی پائی جائے۔
(حمامۃ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ص۲۹۷)’’ماکان لی ان ادعی النبوۃ واخرج