یہ آیت قرآنی صاف ظاہر کررہی ہے کہ عالم ارواح میںجس وقت کہ خدا تعالیٰ نے تمام ارواح عالم سے اپنی ربوبیت کا عہد لیاتھا۔ اس وقت کل انبیاء سے بھی الرسول کی نبوت کے متعلق اقرار لیا تھا کہ وہ نبی معہود جو سارے نبیوں کا مصدق ہے اور سب کی تصدیق پر مہر ثبت کرنے والا ہے۔ اگر تمہارے پاس آئے تو تم ضرور اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا۔ تمام ارواح انبیاء نے اس عہد و اقرار کو اپنے ذمہ لیا۔ بس یہی وہ اقرار ہے جس کے مطابق تمام انبیاء اپنے اپنے زمانے میں اس نبی معہود کی بشارت دیتے چلے آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور بشارت کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا ذکر توریت میں درج ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت انجیل میں پائی جاتی ہے اور قرآنی آیت ’’ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد (الصف: ۶)‘‘اس کی شہادت دیتی ہے۔
جانناچاہئے کہ تمام انبیاء کی تصدیق کرنے والا وہی پیغمبرہوسکتا ہے۔ جو سب سے آخر میں تشریف آور ہو۔ پس حضرت محمد ﷺ ہی سب انبیاء کے آخر میں آنے والے نبی ہیں اور سب کی نبوت پرمہرتصدیق لگانے والے ہیں۔ اس نظریہ سے صاف عیاں ہے کہ خاتم النّبیین کے معنی آخرالانبیاء ہیں اور آپ ؐ کے بعد کوئی اور نبی ہرگز نہیں آئے گا۔ آیت مذکورہ بالا کے آخر میں خدائے تعالیٰ نے تمام انبیاء کو خبردار کردیا کہ اس عہدو اقرار کے خلاف اگر کسی نے کوئی کارروائی کی اوراس آخر الانبیاء پر ایمان نہ لایا تو وہ فاسقین کے زمرہ میں شامل کردیاجائے گا۔
دوم… ’’ماکان محمد ابااحدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین، وکان اﷲ بکل شی علیما (احزاب:۴۰)‘‘{محمدؐ کسی کے (جسمانی) باپ نہیں اور لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اوراﷲ ہر شے کا عالم ہے۔}
اس آیت قرآنی کا مفہوم صاف ہے۔ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے متعلق نفی ابوت جسمانی بیان کرنے کے بعد ابوت روحانی کو بہ لفظ ’’خاتم النّبیین‘‘ فرماکر قیامت تک کے لئے قائم کر دیا ہے۔ نبی ہمیشہ امت کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ اگر آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی او ر نبی یا رسول آجائے تو پھر حضرت محمد ﷺ امت موجودہ کے روحانی باپ نہیں رہ سکتے۔ بلکہ دوسرا آنے والا نبی موجودہ امت کا باپ بن جائے گا۔ اس لئے لامحالہ ثابت ہوا کہ حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اورخاتم الرسول۔