آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور جو آئیں گے وہ امام کی حیثیت سے آئیں گے۔ نبی کا لقب پانے کے مستحق نہیں ہوں گے۔ کیونکہ حضور علیہ السلام نے سب انبیاء کی تصدیق فرمائی ہے اورآخر الانبیاء ہی سب کا مصدق ہو سکتا ہے۔ پہلے آنے والا تو مبشر ہوتا ہے اور ہر نبی مبشر ہوتا ہے اپنے مابعد کا اورمصدق ہوتا ہے اپنے ماقبل کا۔قرآن مجید کے مطالعہ سے صاف عیاں ہے کہ انبیاء سابقین کو جھٹلایا گیا،تہمتیں لگائی گئیں۔ خاص کر قوم یہود نے حضرت لوط علیہ السلام،حضرت داؤد علیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام وغیرہ پر بدکاری کی تہمتیں لگائیں اور دیگر انبیاء کو جھٹلا کر ان کے ساتھ قتال کیا۔
قرآن مجید نے سب انبیاء کو ’’کل من الصٰلحین (الانعام:۸۵)‘‘بتاکر مہر تصدیق ثبت کی۔ قرآنی الفاظ بتاتے ہیں کہ خاتم النّبیین کے آخر الانبیاء ہی معنی ہیں اور سب کے سب مفسرین یہی معنی لکھتے چلے آئے ہیں۔ جو حضرات اجماع امت کے خلاف خاتم النّبیین کے معنی ’’اجرائے نبوت‘‘ کرتے ہیں۔ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح تاویلات سے کام لے کر حضرت محمدﷺ کی اورآپ ؐ کے منصب کی سخت توہین کرتے ہیں اور بموجب آیت قرآنی فاسقین کے گروہ میں شامل ہیں۔ ایسے لوگوں کی جھوم جھام کر نمازیں پڑھنی اورلمبی لمبی دعائیں سب فضول جاتی ہیں۔ انہی لوگوں کے متعلق حضرت رسول ﷺ کی پیشین گوئی ہے کہ آخیرزمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گی۔ جو قرآن کو پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔(بخاری، مسلم)
سوم… ’’وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا ولٰکن اکثر الناس لایعلمون (سباء ۲۸)‘‘{ہم نے تجھ کو(اے محمدؐ) نہیں بھیجا مگر تمام انسانوںکے لئے بشیر و نذیر بناکر اورلیکن اکثرلوگ نہیں جانتے۔}
اس آیت کے اندر ’’الناس‘‘ کلی کی صورت میں ہے اور قیامت تک آنے والے کل افراد انسانی کو شامل کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک انسان کاوجود قائم ہے اورقائم رہے گا۔وہاں تک محمدﷺ کی نبوت ہوگی اورآپ ﷺ کا روحانی فیض قیامت تک بنی نوع انسان تک پہنچتا رہے گا اورآنحضرت ﷺ ہی خاتم النّبیین ہیں۔
چہارم… ’’تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعٰلمین نذیرا (الفرقان:۱)‘‘{بڑی برکت والا ہے وہ ذات پاک جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا