’’اولئک الذین اتینھم الکتٰب والحکم والنبوۃ وان یکفربہا ھؤ لاء فقد وکّلنا بھا قوما لیسوا بہا بکفرین (الانعام:۸۹)‘‘{یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب، حکومت اورنبوت بخشی۔ پس اگر یہ (کافر لوگ) ان باتوں کو نہ مانیں تو ہم نے ان پر ایسے لوگ مقرر کئے ہیں جو ان باتوں کاانکار نہیں کریںگے۔}
یہ آیت قرآنی صاف ظاہر کررہی ہے کہ انبیاء کے منصب پرمامور ہونے والے اور نبی کے لقب سے ممتاز ہونے والے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کتاب، حکومت اور نبوت کے نشانات کے ساتھ دنیا میں تشریف فرما ہوتے رہے ہیں۔ اگرچہ ابتداء میں ان کو سخت سے سخت تکالیف کا سامنا کرناپڑا۔ مگر آخر میںحکومت جیسی نعمت عظمیٰ سے سرفراز کئے گئے اور یہ ان کی صداقت کا معیار تھا۔ جیسا کہ دنیاوی حکام بھی جب کسی کو پولیس وغیرہ کے عہدے پر ممتاز کرتے ہیں تو ان کو بھی تین چیزیں بطور نشانات گورنمنٹ کی طرف سے عطاء ہوتی ہیں۔ اول وردی، دوم ڈنڈا اور تیسرے عہدہ۔
اگر کسی ملازم سرکار کے پاس یہ تین نشانات کسی موقعہ پر موجود نہ ہوں تو اس کو پبلک سرکاری ملازم تصورنہیں کرسکتی اور بصورت خلاف ورزی پبلک پر کوئی جرم بھی عائد نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلہ قرآنی جیساکہ اوپر درج ہو چکا ہے، ناطق ہے۔ اب ضرورت اس بات کی باقی رہتی ہے کہ خاتم النّبیین کے مسئلہ کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کیاجائے۔ اول
’’واذاخذاﷲ میثاق النّبیین لما اتیتکم من الکتب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ، قال ئاقررتم واخذتم علی ذلکم اصری، قالوا اقررنا، قال فاشھدوا وانامعکم من الشاھدین،فمن تولیٰ بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقون (آل عمران:۸۱، ۸۲)‘‘{اور جس وقت اﷲ تعالیٰ نے کل انبیاء سے عہد لیا اورکہا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں اور پھر تمہارے پاس وہ رسول جو تمہاری نبوتوں کی تصدیق کرے گاآئے، تو تم ضرور اس کی تصدیق کرنا اور اس پرایمان لانا۔ کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور مجھ سے عہد کرتے ہو ۔ سب نے کہا ہم نے اقرار کیا(خدا نے ) کہا کہ تم سب گواہ رہو او ر میں بھی تمہارے ساتھ اس گواہی میں شامل ہوں اور جو شخص اس عہد و اقرار کے بعد اس سے پھر جائے گا، وہ فاسقوں میں سے ہوگا۔}