۴… (چشمہ معرفت ص۳۱۸حاشیہ ، خزائن ج۲۳ص۳۳۳)’’مسیح موعود کے کئی نام ہیں۔ منجملہ ان کے ایک نام اس کا خاتم الخلفاء ہے۔‘‘ یعنی ایساخلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والاہے۔
اس جگہ مرزا نے خاتم کو جمع کی طرف مضاف کرکے اس کی تفسیر بھی لفظ’’آخری‘‘ کے ساتھ کی ہے۔
۵… رسالہ(الفرق فی آدم والمسیح الموعودص ب، ملحقہ خطبہ الہامیہ، خزائن ج۱۶ص۳۰۹)’’کما کان عیسیٰ خاتم الخلفاء السلسلۃ الکلیمیہ وکان لماخاخراللبنۃ وخاتم المرسلین‘‘یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام موسویہ سلسلہ کے آخری خلیفہ تھے اورآخری اینٹ تھے اور خاتم المرسلین تھے۔ کیا یہاں یہ مراد ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح اپنے بعد کے نبیوں کو مہر لگا لگا کر بھیجنے والے تھے۔ اگر اسی مطلب کو صحیح مان لیا جائے۔ پھر توآنحضرتﷺ اورحضرت مسیح دونوں ہی خاتم النّبیین اورخاتم المرسلین ہوںگے۔ پھر دونوں میں فرق کیارہا؟ پھر لطف یہ کہ لفظ خاتم مضاف بھی جمع مذکر سالم کی طرف ہے۔ اس سے ان لوگوں کا اعتراض زائل ہوجاتاہے۔ جو مرزا کے دفاع میں یہ تکلف کیاکرتے ہیں کہ کوئی ایسی عبارت بتاؤ۔جس میں خاتم کا لفظ جمع مذکو سالم کی طرف مضاف ہو اور وہاں معنی ختم کرنے والا اوربند کرنے والا ہو۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ لیکن استشہاد کے لئے یہی کافی ہیں۔ کسی چیز پر ختم اور مہر لگانا بند کرنے کے مترادف ہے۔
ذیل میں کچھ ایسی عبارتیں درج کی جارہی ہیں۔ جن میں مرزا قادیانی نے مہر لگانے کا محاورہ بند کرنے کے معنی میں کیاہے اور ان مقامات پر مہرلگانے کا معنی ایک دفعہ بند پھر جاری کرنے کا معنی نہیں ہوسکتا۔
۱… (حقیقت الوحی ص۳،خزائن ج۲۲ص۵)’’ویدکی رو سے خوابوں اور الہاموں پر مہر لگ گئی ہے۔‘‘
۲… (حقیقت الوحی ص۲۷، خزائن ج۲۲ص۲۹)’’آئندہ الہام اوروحی الٰہی پر مہر لگ گئی ہے۔‘‘
۳… (حقیقت الوحی ص۶۰،خزائن ج۲۲ص۶۲)’’عیسائی مذہب میں معرفت الٰہی کا دروازہ بند ہے۔ کیونکہ خدا کی ہمکلامی پر مہر لگ گئی ہے اورآسمانی نشانوں کا خاتمہ ہوگیاہے۔‘‘
۴… (ضرورۃ الامام ص۲۰، خزائن ج۱۳ص۴۹۰)’’آریوں نے تووید تک ہی خدا کے کلام پر مہر لگا دی تھی۔‘‘
ویسے بھی جب کسی چیز پر مہر لگ جاتی ہے۔ تو اس کا معنی بند کرنا ہی ہواکرتا ہے۔ عام