علیکم اذجعل فیکم انبیاء و جعلکم ملوکاو آتاکم مالم یؤت احدا من العٰلمین (المائدہ:۲۰)‘‘{اے قوم (بنی اسرائیل) یاد کرو اﷲ کی نعمت کو جب کہ تم میں انبیاء مبعوث ہوئے اور تم کو بادشاہت بخشی اور تم کو وہ نعمتیں بخشیں جو دنیا کے دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں تھیں۔}
یہ آیت قرآنی صاف پتہ دیتی ہے کہ دنیا میں کسی قوم کی سرفرازی کے لئے دو بڑی نعمتیں ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے موہبت عطاء ہوتی ہیں۔ باقی سب دوسری نعمتیں ان کے ذیل میں آتی ہیں اوروہ نبوت اوربادشاہت ہیں۔ باقی اورسب نعمتیں ان سے نیچے۔
دوم… ایمانداروں کو حکومت دیئے جانے کے متعلق قرآنی وعدہ:
’’وعداﷲ الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنّہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (النور:۵۵)‘‘{وعدہ کیا ہے اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اورنیک عمل کئے کہ بیشک ضرور ہم ان کو زمین پر بادشاہت بخشیں گے۔ جیسا کہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بادشاہت بخشی تھی۔}
اس آیت قرآنی سے صاف عیاں ہے کہ امت محمدیہ کے ان لوگوں سے جو ایمان لائیں اور ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بھی کرتے رہیں۔ خدا کا حتمی وعدہ ہے کہ دنیا میں ان کو حکومت اور بادشاہت بخشی جائے گی۔ جیسا کہ پہلی قوموں کے نیک افراد کو بادشاہت اور حکومت بخشی گئی تھی۔ یہ خدائی وعدہ ہے جو کسی صورت میں جھوٹا نہیں ہوسکتا اور دنیا میں اس کاظہور بھی ہو چکا ہے۔
سوم… اس بات کاثبوت کہ جس قدر انبیاء قرآن کے اندر مذکور ہوئے ہیں۔ ان سب کو کتاب، حکومت اور نبوت درگاہ ایزدی سے عطاء ہوئی تھی۔
سورئہ انعام رکو ع نمبر۹ کے اندرخدا تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، نوح علیہ السلام، داؤد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام،ایوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام،عیسیٰ علیہ السلام، اسمٰعیل علیہ السلام، الیاس علیہ السلام، یسع علیہ السلام، یونس علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کے نام بنام مسلسل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: