کی اتباع کرنا ضروری ہوگا۔ اس جگہ رسل کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے کہ انبیاء کی تجدید و تعیین نہیں کی۔ جس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم صفی اﷲ کے بعد کافی تعداد میں انبیاء کرام مبعوث ہوںگے۔
بعد ازاں حضرت نوح علیہ السلام وحضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ آیا۔ تو اس میں بھی یہی اعلان ہوا کہ ان کے بعد بھی بکثرت انبیاء ہوںگے۔
’’ولقدارسلنا نوحا وابراہیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتاب فمنھم مھتد وکثیر منھم فاسقون ثم قفینا علی اثارھم برسلنا (حدید:۲۶)‘‘ {ہم نے نوح اورابراہیم کو بھیجا اور ان کی اولاد میں نبوت مقرر کردی۔ کچھ ان میں سے ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سے فاسق ہیں۔ پھر ان کے بعد ہم نے بہت سے رسول بھیجے۔}
اس آیت کریمہ میں صاف فرمایا کہ حضرت نوح او رحضرت ابراہیم علیہم السلام پر نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوگیاتھا۔ بلکہ ان کے بعد بھی کافی تعداد میں انبیاء کرام تشریف لائے اور یہاں بھی رسل کا لفظ فرمایا۔ کوئی تجدید و تعین نہیں فرمائی۔ علی ہذا القیاس یہی سنت اﷲ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی رہی اوربعینہ یہی مضمون مندرجہ ذیل آیت میں صادر ہوا۔
’’ولقد آتینا موسیٰ الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل (بقرۃ:۸۷)‘‘ {یقینا ہم نے موسیٰ کو کتاب دی او اس کے بعد رسولوں کوبھیجا۔}
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی باب نبوت بند نہیں ہواتھا اور اس کے بعد انبیاء کرام بکثرت آتے رہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے بالرسل کہہ کرارشادفرمایا۔صرف یہ تین آیتیں اس لئے ذکر کی گئیں کہ معلوم ہو جائے کہ اولوالعزم انبیاء کرام کے بعد سنت خداوندی کیا کچھ چلتی رہی۔
لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کی باری آئی تو اس مبشر احمد نے آکر دنیا کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے بعد سلسلہ نبوت اس کثرت اور غیر محدود نہیں جیسے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ہوتا چلا آیا ہے۔ بلکہ ان کے زمانہ میں نبوت میں ایک نوع کا انقلاب ہوگیا ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ الرسل کے لفظ سے انبیاء کی آمد کو بیان کیا جاتا تھا۔ اب واحد کا لفظ برسول کہہ کر ارشاد کیا اور بجائے اس کے حسب سابق غیر محدود اورغیر معین رسولوں کے آنے کا ذکرکیاجاتا۔ طریق بیان کو بدل کر صرف ایک رسول کے آنے کی اطلاع دی اور اس کے اسم مبارک (احمد) کی بھی تعیین فرمادی کہ کوئی شقی ازلی یہ دعویٰ نہ کرنے لگے کہ اس کا مصداق میں ہوں۔