تحریر کیا ہے کہ اس آیت میں ’’ثم جاء کم رسول‘‘سے مراد آنحضرتﷺ ہی ہیں۔
قرآن مجید کو اوّل سے آخر تک پڑھئے۔ آپ کومعلوم ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع کیا اورآنحضرتﷺ پر ختم کردیا۔ خود مرزا قادیانی کے الفاظ یہ ہیں:’’سیدنا و مولانا حضرت مصطفیﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کافر و کاذب جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ ﷺ پر ختم ہوگئی۔‘‘
(دین الحق ص۲۷ از اشتہار ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء ص۱، مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۳۰)
میں قرآن مجید کا نقشہ نبوت حضرات ناظرین کرام کے سامنے رکھ دیتاہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب دنیا پیدا ہوئی تو اس وقت حکم خداوندی حضرت آدم صفی اﷲ کو بدیں الفاظ پہنچایاگیا۔
’’قلنا اھبطوا منہا جمیعا فاما یاتینکم منی ہدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یخزنون (بقرۃ:۳۸)‘‘{ہم نے کہا یہاں سے اتر جاؤ سب کے سب پھر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آوے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے۔ ان لوگوں پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوںگے۔}
طہٰ میں ہے کہ:’’قال اھبطا منہا جمیعاً بعضکم لبعض عدوفاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ہدای فلا یضل ولا یشقی‘‘
اس مضمون کو الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ دوسری جگہ ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس کو آج کل مرزائی آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کو جاری ثابت کرنے کے لئے بالکل بے محل پیش کر دیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت کا تعلق حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
’’یابنی آدم امایاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیہم ولا ھم یخزنون (اعراف:۳۵)‘‘ {اے آدم کی اولاد تمہارے پاس میرے رسول آئیںگے اورتم پر میری آیات بیان کریںگے۔ تو جو پرہیز گاری اختیار کرے گا اوراپنی اصلاح کرے گا۔ ایسے لوگوں پر کوئی خوف نہ ہوگا اورنہ کوئی غم۔}
ان دونوں آیات میں ابتداء افرینش کا ذکر فرمایا جارہا ہے اور دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بنی آدم اور نوع انسان کو حکم دیا ہے کہ میں حضرت آدم علیہ السلا م سے نبوت کا سلسلہ شروع کرنا چاہتاہوں اور حضرت آدم کے بعد انبیاء و رسل بکثرت ہوںگے اورلوگوں کے لئے ان