صراحتہً و کنایتہ یا اشارتاً ذکر تک نہیں فرمایا۔ جس سے صاف ثابت ہوگیا کہ جن جن حضرات کو خلعت نبوت و رسالت سے نوازنا مقدر تھا۔ پس وہ ہو چکے اور گزر گئے۔ اب آئندہ نبوت پر مہر لگ گئی ہے اوربعد میں نبوت کی راہ کو ابدالآباد کے لئے مسدور کر دیاگیا ہے اور اب انبیاء کے شمار میں اضافہ نہ ہوسکے گا۔
آیات مندرجہ بالا کے علاوہ ایک ایسی بھی آیت لکھ دوں جوکہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کی ضرورت ہی کو اٹھا دے اوروہ ایسی فلاسفی بتا دے کہ جس پریقین کرکے ہر مومن اطمینان حاصل کرے کہ اب آئندہ کسی کو نبوت حاصل نہ ہوگی او ر نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔
’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا (مائدہ:۳)‘‘{آ ج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔}
اس ارشاد خداوندی نے بتادیا کہ دین کے تمام محاسن مکمل اور پورے ہوچکے ہیں۔ اب کسی متمم یا مکمل کی ضرورت نہیں رہی۔ ظاہر ہے جب کسی متمم یا مکمل کی ضرورت نہیں تو یقینا آج کے بعد کسی کونبی بنانے کی بھی کوئی حاجت نہیں۔
اس آیت کا معنی میں مرزا قادیانی کی زبان سے ہی کروادیتا ہوں۔ مرزا نے اپنی کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۵۱، خزائن ج۱۷ص۱۷۴) پرلکھا ہے کہ :’’ایسا ہی آیت ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ اور آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘میں صریح نبوت کو آنحضرتﷺ پر ختم کر چکا ہے کہ آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔‘‘
نیز قرآن مجید نے اشارتاً ارشاد فرمایا ہے کہ آنحضرتﷺ تمام انبیاء کرام کے بعد تشریف فرما ہوئے ہیں۔ جتنے نبی ہو چکے ہیں۔ وہ سب کے سب آپﷺ سے پہلے ہی ہیں۔ آپﷺ کے بعد اب کسی کو نبوت سے نہ نوازا جائے گا۔
’’واذاخذاﷲ میثاق النّبیین لما آتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ (آل عمران:۸۱)‘‘ {اور جب لیا اﷲ نے اقرار نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آئے گا تمہارے پاس رسول جو تمہارے پاس والی کتاب کی تصدیق کرتا ہو تو اس پر ایمان لانا ہوگا اوراس کی امداد کرنا ہوگی۔}
اس جگہ یہ متعین کردیاگیا ہے کہ آنحضرتﷺ تمام انبیاء کے بعد آئیں گے۔ اسی آیت کو مرزا قادیانی نے (حقیقت الوحی ص۱۳۰، خزائن ج۲۲ص۱۳۳)میںنقل کرکے اس کے بعد یہ