۶… ’’ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین (زمر:۶۵)‘‘{وحی کی گئی ہے تیری طرف اور ان لوگوں کی طرف جو تجھ سے پہلے ہوئے ہیں اور اگر تو شرک کرے گا تو تیرے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تو خاسرین میں سے ہوگا۔}
۷… ’’کذالک یوحی الیک والی الذین من قبلک اﷲ العزیز الحکیم (شوریٰ:۳)‘‘ {یونہی تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف خدا غالب و حکیم وحی کرتا رہا ہے۔}
مندرجہ بالا ت تمام آیات میں خدا تعالیٰ نے ہمیں صرف ان کتابوں، الہاموں اور وحیوں کی اطلاع دی ہے اور ہم نے صرف انہی انبیاء کو ماننے کا تقاضا کیا ہے جو آنحضرتﷺ سے پہلے گزر چکے ہیں اوربعد میں کسی نبی کا ذکر نہیں فرمایا۔
یہ چند آیات لکھی گئی ہیں۔ ورنہ قرآن پاک میں اس نوعیت کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ مندرجہ بالا آیات میں ’’من قبل یا من قبلک‘‘کا صریح طور پر ذکر تھا۔ اب چندہ وہ آیات بھی ملاحظہ فرمائیے جن میں خدا تعالیٰ نے ماضی کے صیغہ میں انبیاء کا ذکر فرمایا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبوت کا منصب جن لوگوں کو حاصل ہونا تھا۔ وہ ماضی میں حاصل ہوچکا اور انہی کا ماننا داخل ایمان ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کو نبوت بخشی جائے اور اس کا ماننا ایمان کی جزو لازمی قرار دی گئی ہو۔
۱… ’’قولوا آمنا باﷲ وما انزل الینا وما انزل الی ابراہیم (بقرۃ:۱۳۶)‘‘ {کہو کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور اس پر جو ہم پر نازل کی گئی اور اس پر جو حضرت ابراہیم پرنازل کی گئی۔}
۲… ’’قل آمنا باﷲ وما انزل علینا وما انزل علی ابراہیم (آل عمران:۸۴)‘‘{کہہ دو کہ ہم نے مان لیا اﷲ تعالیٰ کو اور اس کو جو ہماری طرف نازل کی گئی اور اس کو جو حضرت ابراہیم کی طرف نازل کی گئی۔}
۳… ’’انااوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنّبیین من بعدہ و اوحینا الی ابراہیم واسماعیل (نسا:۱۶۳)‘‘ {ہم نے وحی کی تیری طرف جیسے کہ وحی کی نوح اوراس کے بعد کے نبیوںکی طرف اورجیسے کہ ہم نے وحی کی ابراہیم اوراسماعیل کی طرف۔}
ان تینوں آیات میں اور ان جیسی دیگر آیات میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں گذشتہ انبیاء اور ماضی کی وحی کو منوانے کا اہتمام کیا ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعد کسی کی نبوت اور رسالت کو کہیں