سابقہ پڑنا تھا۔ آنحضرتﷺ کے بعد کی نبوتوں سے مگر ان کا نام و نشان تک نہ ہونا۔ بلکہ ختم نبوت کو قرآن مجید میںکھلے لفظوں میں بیان فرمانا صاف اورروشن دلیل ہے اس بات کی کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی شخصیت کو نبوت یا رسالت عطاء نہ کی جائے گی۔ مندرجہ ذیل آیات پر غور فرمائیے۔
۱… ’’یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ۱؎(بقرۃ:۴)‘‘ {ایمان لاتے ہیں اس پر جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور اس پر جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔}
۲… ’’یآ اھل الکتاب ھل تنقمون منا الاان آمنا باﷲ وما انزل الینا وما انزل من قبل(مائدہ:۵۹)‘‘{اے اہل کتاب تم لوگ ہم سے صرف اس چیز کو ناپسند کرتے ہو کہ ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لے آئے ہیں اور اس چیز پر جو ہم پر اور ہم سے پہلے نازل کی گئی ہے۔}
۳… ’’لکن الراسخون فی العلم منھم والمومنون یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک (نسائ:۱۶۲)‘‘ {لیکن ان میں سے پختہ علم والے لوگ اور مومن لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تم پرنازل کی گئی ہے اوراس پر جو تجھ سے پہلے نازل کی گئی ہے۔}
۴… ’’یآ یھاالذین آمنوا آمنو باﷲ و رسولہ والکتاب الذی نزل علی رسولہ والکتاب الذی انزل من قبل (نسائ:۱۳۶)‘‘{اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول اور کتاب کو جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اوراس کتاب کو جو اس سے پہلے نازل کی گئی ہے۔ مانوا}
۵… ’’الم ترالی الذین یزعمون انھم آمنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک(نسائ:۲۰۰)‘‘ {کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو سمجھتے ہیں کہ وہ اس پرایمان لے آئے ہیں۔جو تجھ پرنازل کی گئی ہے اوراس پر جو تجھ سے پہلے نازل کی گئی ہے۔}
۱؎ بعض ناواقف لوگ مرزا کی نبوت منوانے کے لئے بالآخرۃ ہم یوقنون کی آیت کو بے محل پیش کر دیا کرتے ہیں اور آخرۃ سے مراد آخری نبوت یعنی مرزا کی نبوت مراد ٹھہرایا کرتے ہیں۔ لیکن خود مرزا قادیانی اس جگہ آخرۃ سے مراد قیامت سمجھتاہے۔ (دیکھو الحکم نمبر۲ جلد نمبر۱۰، ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء ص۵، کالم نمبر۳۰۲،ملفوظات ج۸ص۳۰۷)اس میں مرزا قادیانی نے بالآخرۃ ہم یوقنون کا ترجمہ’’اورآخرت پریقین رکھتے ہیں ‘‘ کیا ہے اور پھر لکھتاہے ’’قیامت پر یقین رکھتاہو۔‘‘