دعوے کی پکار پر انگریزی والوں کی ایک جماعت قائم ہوگئی اورچندہ جمع ہونا شروع ہوگیا اور پھر بعد ازاں رفتہ رفتہ تحریرات میں نبوت کا چرچا شروع ہوتا چلاگیا او ربالآخر ماہ مئی ۱۹۰۸ء میں مرزا قادیانی یکدم شہر لاہور میں انتقال فرماگئے۔
مرزا قادیانی کی زندگانی میں گورداسپور کا ضلع برطانیہ حکومت کے قبضہ میں تھا اور بعد انتقال اب تک اسی عیسائی گورنمنٹ کے ماتحت چلا آتا ہے۔ اگر مرزا قادیانی فی الواقعہ نبی ہوتے توضرور تھا کہ قرآنی فیصلہ کے مطابق اور حضرت محمدﷺ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق ضلع گورداسپور کے مالک ہوتے ورنہ کم از کم اپنے مریدین کو موضع قادیان کی حکومت تو دے کرجاتے۔ مرزا قادیانی بوقت انتقال جو کچھ اپنے مریدین کو عطا فرماکر گئے ہیں۔ وہ صرف زبانی بحث نبوت ہے۔ جو ہر وقت اور ہر آن مرزائی ممبران کے اندر جاری وساری رہتی ہے اور باقی لین دین کو کچھ نہیں۔ کھاؤ، پیو، گھر اپنے۔ رہو ہمارے پاس، مگر ہاں اتنا تحریر فرما گئے ہیں کہ بغیر چندہ دیئے جماعت احمدیہ کا داخلہ ناممکن ہے اور جو شخص چندہ نہ دے اس کو خارج از جماعت کر دیا جائے۔
یہ چندہ ایک عام چندہ ہے اوراس کے علاوہ بہشتی مقبرے کی قبر فروشی کا چندہ خاص الخاص ہے۔لیکن اس تمام چندہ کی رقم پرقبضہ و تصرف خلیفہ اورامیر جماعت کا ہوتا ہے اور یہی ہر دو صاحبان ڈلہوزی وغیر ہ کی ہوائیں کھاتے رہتے ہیں۔ مرید توبطور مہمانی چند روز روٹی ٹکڑا کھا سکتے ہیں اور باقی بس۔
یاد رہے کہ عہدہ نبوت ایک نعمت عظمیٰ ہے اور خدائی منصب محض خواب اورالہام کاہونا کوئی نبوت کی نشانی نہیں۔ خواب ہر مومن و کافر سب دیکھتے ہیں۔ کچھ سچے ہوجاتے ہیں اورکچھ جھوٹے۔ اسی طرح الہامات کا حال ہے۔ الہامات رحمانی اور شیطانی بھی ہوتے ہیں۔ وحی زمین و آسمان کو ہوتی ہے۔ وحی مرد وعورت کو ہوتی ہے۔ وحی حیوانات اور شہد کی مکھی کو بھی ہوتی ہے۔ وحی درخت اورنباتات کو بھی ہوتی ہے۔ اس سے کسی کو نبوت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے معیار کے لئے قرآنی فیصلہ کے مطابق ہر مدعی نبوت کو کتاب اور حکم وحکومت کا حاصل ہونا ایک لازمی امر ہے۔ مگر مرزا قادیانی کتاب اورحکومت جیسی نعمت عظمیٰ سے محروم رخصت ہوتے ہیں۔ اس واسطے نبوت کے مستحق قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ فیصلہ قرآنی حسب ذیل ہے۔
اوّل… نبوت اور حکومت کے متعلق نعمت عظمیٰ ہونے کا ثبوت: ’’یاقوم اذکروا نعمت اﷲ