نہیں کرتے؟ پھر ایک اور بات بھی قابل غور ہے۔ اگرکوئی شخص بفرض محال نبوت کو جاری بھی مان لے اور عیسیٰ علیہ السلام کو بھی قادیانیوں کی طرح فوت شدہ تسلیم کرے۔ جیسا کہ بہائی فرقہ کا عقیدہ ہے۔ لیکن مرزا قادیانی پر ایمان نہ لائے۔ اسے جھوٹا یقین کرے تو کیا قادیانی اس شخص کو جھوٹا تسلیم کریںگے؟
جبکہ وہ ان کے دونوں عقیدے تسلیم کر چکا ہے؟ہرگز نہیں۔ کیونکہ جب تک وہ مرزا قادیانی پر ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا اور جہنم سے نہیں بچ سکتا۔ تو معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ مانے تب بھی قادیانیوں کے نزدیک کافر اور فوت شدہ مانے تب بھی کافر۔ نبوت کو بند مانے تو بھی کافر۔ جاری مانے تو بھی کافر اور جہنمی۔ جس کی واضح مثال بہائیوں کی موجود ہے۔ قادیانیوں کے نزدیک بہائی بھی اسی طرح کافر اور جہنمی ہیں۔ جس طرح ہم مسمان ان کے نزدیک کافر اور جہنمی ہیں۔
مرزا بشیر الدین محمود کہتا ہے کہ کل مسلمان جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت نہیں کی۔ خواہ انہوں نے ان کا نام بھی نہیںسنا۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ اصل موضوع بحث مرزا قادیانی کی ذات ہے۔دوسری بحثوں میںپڑنا اور اصل موضوع سے پہلو تہی کرنا وقت کو ضائع کرنا ہے۔ امت مرزائیہ کو ہمارا چیلنج ہے کہ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں، مرزا قادیانی کی سیرت اورکریکٹر پر ہم سے بحث کر سکتے ہیں۔ لیکن بقول کسے:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
قادیانی ہر ذلت برداشت کر سکتا ہے۔ بلکہ موت قبول کر سکتا ہے۔ لیکن مرزا قادیانی کی زندگی پر بحث او ر مناظرہ نہیں کرسکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر مرزا قادیانی اپنی تحریرات کی روشنی میں ایک سچا اور شریف انسان ثابت ہو جائے تو ہم اس کے تمام دعاوی پرآنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں گے اور ہم کسی دیگر موضوع پر بحث مباحثہ نہیں کریں گے۔ قارئین کرام اس نقطہ کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں اور جب بھی کسی قادیانی سے گفتگو کا موقع ملے۔تو صرف اورصرف مرزا قادیانی کی سیرت پر بحث کریں۔ دوسری بحثوں میں پڑ کر وقت ضائع مت کریں۔ اگر وہ سچا ہو جائے تو ہر بات میںسچا اور اگر وہ ایک بات میں بھی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھروہ بقول اپنے کسی بات میں بھی سچا نہیں ہے۔ سب میں جھوٹا ہے اوربقول مرزا قادیانی کے:’’جو شخص ایک بات میں جھوٹا ثابت ہو جائے۔ اس کا کسی بات پر بھی اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ص۲۳۱)