قادیانی کا نہ صرف یہ عقیدہ تھا بلکہ قرآن اور حدیث سے اس عقیدہ کو ثابت کرتا رہا۔ جسے بعد میں جاکر شرک عظیم قرار دے دیا۔ اب آپ ازراہ انصاف خود فیصلہ فرمائیں کہ اس مسئلہ پر بحث مباحثہ اورگفتگو کرنے کی کیا ضرورت باقی رہی او ر جبکہ مرزا قادیانی خودکہتا ہے کہ میں اس غلطی کی اصلاح کے لئے نہیں آیا۔ بلکہ حضورﷺ کے زمانہ سے یہ غلطی چلی آتی ہے۔
اگر اﷲ تعالیٰ کے نزدیک یہ کوئی اہم بات ہوتی تو اﷲ تعالیٰ اس کی اسی وقت اصلاح فرما دیتے جب یہ غلطی پیدا ہوئی تھی۔ پھر مرز ا قادیانی کا یہ ملفوظ بھی موجود ہے کہ ہماری یہ عرض ہرگز نہیں کہ ہم حیات ووفات مسیح پر جھگڑے اورمباحثے کرتے پھریں۔ یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔ اب قادیانیوں کو بحث مباحثہ کے لئے او ر کوئی موضوع ہی نہیں ملتا۔ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ یہ ایک معمولی بات ہے۔ ہمیں اس پرجھگڑے اورمباحثے نہیں کرنے چاہئیں تو مرزائیوں کو شرم کرنی چاہئے کہ کم از کم اپنے من گھڑت مسیح موعود کی ہدایت پر تو انہیں عمل کرنا چاہئے۔ ہاں! اصل موضوع بحث مدعیٔ ماموریت مرزا قادیانی کی ذات ہے کہ آیا وہ اپنی تحریرات کی رو سے ایک سچا اور شریف انسان بھی ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔
اور جبکہ اس کے دونوں خلفاء نے بھی یہ فیصلہ دے دیا کہ سب سے پہلے مدعی کو دیکھنا چاہئے کہ واقعی وہ سچا اورراست باز ہے یا نہیں۔ دوسری بحثوں میں پڑنا وقت کوضائع کرنا ہے۔ پھر دیکھئے کہ جن حضورﷺ کا ظل اوربروز ہونے کا مرزا قادیانی مدعی ہے۔ آپﷺ نے اپنا دعویٰ پیش کرنے سے قبل صفاپہاڑی پر چڑھ کر پہلے قریش کے سامنے اپنی چالیس سالہ زندگی پیش کی تھی کہ اے سرداران قریش! اے میرے قبیلے والو! میں نے چالیس سال کی زندگی تمہارے سامنے گزاری ہے۔ میری چالیس سالہ زندگی کا ایک ایک ورق تمہارے سامنے ہے۔ ’’کیف وجدتمونی ھل وجد تمونی صادقا اوکاذبا‘‘{کیا تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا ؟} سب نے یک زبان ہو کر کہا:’’جربناک مرارا ماوجد نافیک الاصدقا‘‘کہ ہم آپ کو بار بار آزما چکے ہیں۔ آپ میں سوائے سچائی کے اورکوئی چیز نہیں پائی۔
مرزاقادیانی بھی اگر واقعی حضورﷺ کا ظل ہے۔ تو اسے اور اس کے پیروکاروں کو بھی تمام مسائل سے پہلے اس کی زندگی پیش کرنی چاہئے۔ لیکن مرزائی اس کی زندگی پر بحث کرنا موت سے بھی زیادہ گراں جانتے ہیں۔
اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کی زندگی کیسی ہے۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ اگر اس کی زندگی عیوب سے پاک صاف ہے۔ توقادیانی اس پربحث کیوں