کرنے سے قبل اس کے کریکٹر کو پرکھا جاتا ہے۔ اگر و ہ ایک سچا اور شریف انسان ہی ثابت نہ ہو تو دوسری بحثوں میں پڑنا خواہ مخواہ وقت کا ضائع کرنا ہوگا۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کے ہر دو جانشینوں حکیم نور الدین اور مرزا بشیر الدین محمود نے اس کا صاف صاف خود اعتراف کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
۱… ’’خاکسار(مرزا بشیر احمد،ایم ۔اے) عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول (حکیم نور الدین) فرماتے تھے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا مولوی صاحب! کیا نبی کریمﷺ کے بعد کوئی نبی ہو سکتاہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر؟ میں نے کہا تو پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اورراستباز ہے یا نہیں۔ اگر صادق ہے تو بہرحال اس کی بات کو قبول کریںگے۔‘‘(سیرت المہدی حصہ اول ص۸۸، روایت نمبر۱۰۹)
۲… ’’جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک شخص فی الواقع مامور من اﷲ ہے۔ تو پھر اجمالاً اس کے تمام دعاویٰ پر ایمان لانا واجب ہو جاتا ہے۔ الغرض اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مدعی ماموریت فی الواقع سچا ہے یا نہیں۔ اگر اس کی صداقت ثابت ہو جائے۔ تو اس کے تمام دعاویٰ کی صداقت بھی ساتھ ہی ثابت ہو جاتی ہے۔ اگر اس کی سچائی ہی ثابت نہ ہو تو اس کے متعلق تفصیلات میں پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہوتاہے۔‘‘(دعوت الامیر،مصنف مرزا بشیرالدین محمود،ص۴۹،۵۰)
نوٹ… مذکورہ بالا دونوں حوالوں سے ثابت ہوا کہ اصل بحث صدق و کذب پر ہونی چاہئے۔ اگر وہ ہوہی جھوٹا توپھر اس کے دعاوی وغیر ہ پر بحث کرنا فضول ہے۔
اسی بناء پر ہم قادیانیوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ دوسری بحثوں میں الجھنے اور وقت ضائع کرنے کی بجائے پہلے یہ دیکھیں کہ مرزا قادیانی اپنی تحریرات کی روشنی میں ایک شریف انسان بھی ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ لیکن مرزائی یہ ذلت ورسوائی برداشت کر سکتے ہیں۔ زہر کا پیالہ پی سکتے ہیں۔ لیکن مرزا قادیانی کی سیرت و کریکٹر پر بحث کرنے کے لئے قطعا ً تیار نہیں ہوںگے۔
رہا دوسرا موضوع حیات مسیح کا۔ تو یہ ایک خالص علمی موضوع ہے۔ قادیانیوں کی سب سے پہلے کوشش ہوتی ہے کہ اس موضوع پر گفتگو ہو تاکہ مرزا قادیانی کی ناپاک سیرت لوگوں کے سامنے نہ آسکے۔ انہوں نے مرزا قادیانی کی صداقت کا معیار اسی مسئلہ کو بنارکھا ہے۔ حالانکہ مرزا قادیانی خود اعترا ف کرتا ہے کہ نزول مسیح کا عقیدہ نہ تو ہمارے ایمان کا جزو ہے۔ نہ دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہے۔ بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے ایک پیش گوئی ہے۔ جس کا حقیقت اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ مرزا قادیانی بھی یہ لکھتا ہے کہ یہ ایک اجتہادی غلطی ہے اور اس قسم کی اجتہادی غلطی بعض پیش گوئیوں کے سمجھنے میں بنی اسرائیلی انبیاء سے بھی ہوتی آتی ہے اور اس غلطی