اﷲ اور رسول اﷲ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں میرا نفس درمیان میں نہیں ہے۔ بلکہ محمدﷺ ہے۔ اسی لحاظ سے میرانام محمد اوراحمد ہوا۔ پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی علیہ الصلوٰۃ والسلام۔‘‘(ایک غلطی کاازالہ ص۶،خزائن ج۱۸ص۲۱۶)
اور پھر اسی پر اکتفاء نہ کیا۔ بلکہ آگے چل کر خود محمدمصطفیﷺ سے افضل ہونے کا بھی دعویٰ کردیا۔ پھر اس سے بڑھ کر خدائی صفات اور پھر عین خدا ہونے کا بھی دعویٰ کردیا۔ کیونکہ جب مریدین و معتقدین کا ایک حلقہ قائم ہوگیا اورمرزا قادیانی کو یقین ہوگیا کہ میں جو بھی دعویٰ کروں۔ وہ اس پر ’’امنا وصدقنا‘‘کی تسبیح پڑھ کر ایمان لے آتے ہیں تو اس کے لئے کوئی مشکل نہ رہی تھی۔ پہلے تو اسے مسیح موعود کا دعویٰ بھی مشکل نظر آتاتھا۔ لیکن جب اس دعویٰ کو ماننے والے دستیاب ہوگئے تو پھر راستہ ہموار ہوگیا اور راستہ کی کوئی مشکل باقی نہ رہی تو پھر جلد جلد منازل طے کرتے ہوئے خدائی کی آخری منزل تک پہنچ گیا۔ اس کی تمام تر تفصیل آپ کواسی کتاب چراغ ہدایت سے دستیاب ہوگی اور راقم کے رسالہ’’ مرزا قادیانی اور اس کے عقائد‘‘ سے بھی مل سکتی ہے۔ یہاں پر اس تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔
قادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین اکثر تین موضوعات پربحث ومباحثے او ر مناظرے ہوتے چلے آتے ہیں۔
۱… پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کے صدق و کذب اور اس کی پیش گوئیوں کے مباحث چلتے تھے۔
۲… پھر وفات و حیات مسیح علیہ السلام۔
۳… اور پھر اجراء نبوت و ختم نبوت کے موضوع سامنے آتے تھے۔ مگر پاکستان بننے کے بعدقادیانیوں نے اس ترتیب کو بدل دیا اوراب وہ مرزا غلام احمد کے صدق و کذب پر بحث کرنے سے ہمیشہ کنی کتراتے ہیں۔ قادیانیوں کی سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے دوسرے موضوع پر بحث ومباحثہ ہو اور اس میں لوگوں کو الجھایا جائے اور اس کے بعد پھر تیسرے موضوع اجرائے نبوت پر بحث کی جائے۔ پہلے موضوع مرزا قادیانی کی سیرت و کریکٹر اور اس کے صدق وکذب پربحث کرنے کے لئے وہ ہرگز تیار نہیں ہوتے اور بقول مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر مرحوم مرزائی مناظر کے سامنے زہر کا پیالہ رکھ دیں اوراسے کہیں کہ یا تو زہر کا پیالہ پی لے یا مرزا کی سیرت و کردار پر بحث کرلے۔ تو وہ زہر کا پیالہ تو پی سکتا ہے۔ لیکن مرزا کی سیرت پرگفتگو نہیں کرے گا اورمیرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے۔ حالانکہ کسی بھی مدعی کے دعویٰ پر بحث کرنے