آپ کوقادیانیت کے خلاف کوئی کام ملے گا۔ اس کے پیچھے حضرت مولانا محمد چراغؒ کی علمی، عملی اور فکری قوت ملے گی۔ جو آپ نے اپنے استاد حضرت علامہ سید انور شاہ صاحبؒ سے پائی تھی۔
مؤلف کتاب کے اس مختصر تعارف کے بعد اور کتاب چراغ ہدایت کے تعارف سے قبل مرزا قادیانی اور اس کی تحریک کا مختصر پس منظر بھی سمجھ لیجئے۔ اس سے کتاب سمجھنے میںبہت فائدہ ہوگا۔ انگریز نے ۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جب برصغیر پر اپنا پنجۂ استبداد اچھی طرح گاڑ لیا۔ تو انگریز نے اپنے قبضہ کو طول دینے اور استحکام حاصل کرنے کی خاطر کئی مختلف اقدامات کئے۔ اس نے ایک کمیشن مقرر کیا۔ سرولیم ہنٹر کمشن کی رپورٹ کے مطابق انہیں ایک ایسے آدمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جو مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرے اور زبان و قلم سے جہاد کی منسوخی کا اعلان کرے اورانگریز کی اطاعت فرض قرار دینے کی خدمت سرانجام دے۔ اس خدمت کے لئے ان کی نظر انتخاب قادیان کے ایک قدیم وفادار خاندان پر پڑی۔ مرزا غلام مرتضیٰ کا بیٹا آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے انگریزی اقتدار کی اس طلب پرلبیک کہی، اور اس خدمت کو سرانجام دینے کے لئے کمربستہ ہوا۔ چنانچہ مرزا قادیانی بڑے فخر سے اس خدمت کا اپنی کتابوں میں اعتراف کرتا ہے۔ چند حوالہ جات ملاحظہ کیجئے جو ان کی اصل کتابوں سے لئے گئے ہیں۔
۱… ’’اس عاجز کا بڑا بھائی مرزاغلام قادر جس قدر مدت تک زندہ رہا۔ اس نے بھی اپنے والدمرحوم کے قدم پر قدم مارا اور گورنمنٹ (برطانیہ)کی مخلصانہ خدمت میں بدل وجان مصروف رہا۔ پھر وہ بھی اس مسافر خانہ سے گزرگیا۔‘‘
(اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ملحقہ شہادت القرآن ص۲، خزائن ج۶ص۳۷۸)
۲… ’’دوسرا امر قابل گزارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچاہوں۔ اپنی زبان اور قلم سے اہم کام میں مشغول ہوں۔ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیر خواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں۔ جو دلی صفائی اورمخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ص۱۱)
۳… ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اورانگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اورکتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میری ہمیشہ