یہی اعتقاد چلاآتا ہے او راجماع امت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد بزرگ ترین ہستی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ہستی ہے۔ اس کے بعد کوئی درجہ بزرگی باقی نہیں۔ اس سے اوپر الوہیت اور ربوبیت کا ہی مرتبہ ہے۔ لیکن مرزائی نبوت کے اعلانات سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا غلام احمد کا ذہنی ارتقاء آنحضرت ﷺ سے زیادہ تھا او ہر شخص ترقی کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ محمدؐ سے بھی بڑھ سکتاہے۔
ہر خاص و عام جانتے ہیں کہ ترقی کا دارومدار ہر جگہ دین اور دنیا میں عمل اور کار گزاری پر ہوتاہے۔ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی کارگزاری اور سرگذشت سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ حضرت محمدؐ نے یتیمی اور لاوارثی کی حالت میں غیرذی ذرع پہاڑی، ریگستانی اور جنگجو علاقہ کے اندر بغیر تعلیم حاصل کئے جب کہ عامہ عرب پتھروں، درختوں اور سیاروں کی پوجا میں گرفتار تھے، تن تنہا توحید باری تعالیٰ کی آوازبلند کر کے تمام ملک عرب کو بت پرستی اور دیگر جملہ بد رسومات سے بالکل پاک وصاف کر دیا اور بالآخر قسم قسم کی تکالیف برداشت کرنے کے بعد ایک قلیل عرصہ کے اندر تمام ملک عرب کی بادشاہت پرمتمکن ہوگئے اور بعد ازیں ملک عرب کی حکومت اپنی امت کے حوالہ کر کے اور نسل انسانی کی ترقی کے لئے قرآن اور اپنا اسوئہ حسنہ چھوڑ کر اس دار فانی سے رحلت فرماگئے۔
اور پھر آنحضرت ﷺ کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے مطابق امت نے بھی وہ ترقی حاصل کی کہ آٹھ دس سال کے قلیل عرصہ میں مسلمان تین براعظموں کے مالک تھے اوربائیس لاکھ مربع میل پر حکومت چلاتے تھے اوراس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم اور اسوئہ حسنہ نے کروڑہا انسانوں کو معرفت الٰہی کا جام پلاکر اوج ترقی پرپہنچادیا۔ اس کے برخلاف مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگذشت یہ ہے کہ متمول زمیندار گھرانے میں والد کی نگرانی کے اندر ایک شیعہ عالم سے تعلیم حاصل کرکے شہر سیالکوٹ کی کچہری میں گورنمنٹ کے ملازم ہوگئے۔ ملازمت کے دوران میں مختاری کے امتحان کی تیاری کی۔ مگر اس امتحان میں فیل ہوگئے اور والد کے انتقال کے بعد ملازمت سے علیحدہ ہوکر خانہ نشین ہوگئے اور رد عیسائیت میں علمائے متقدمین کی طرح کتابیں تحریر کرنی شروع کردیں اور پھر بعد شہرت بسیار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ ثابت کرکے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا۔
گورنمنٹ برطانیہ کے ماتحت امن وامان کا زمانہ تھا۔ انگریزی تعلیم عام رائج تھی۔ اس