آخری معرکۃ الآراء بیان ہوا اورقادیانیوں کی طرف سے اس پر جرح ہوتی رہی اورحضرت شاہ صاحبؒ جواب دیتے رہے۔ جب حضرت شاہ صاحبؒ کا بیان اور جرح ختم ہوئی۔ (حضرت شاہ صاحبؒ کا بیان اور اس پر جرح کے مکمل جوابات زبور طبع سے آراستہ ہوکر پہلی مرتبہ میدان میں آ چکے ہیں) تو حضرت شاہ صاحبؒ نے قادیانیوں کے بڑے مناظر جلال الدین شمس کا ہاتھ پکڑا اوربڑے جوش میں فرمایا کہ جلال الدین اگر اب بھی تمہیں قادیانی کے کفر میں شبہ ہے تو آؤ میں تمہیں اسے جہنم میں جلتا ہوا دکھاؤں۔
یہ سن کر اس نے جلدی سے ہاتھ چھڑالیا اورکہنے لگا کہ اگر آپ دکھابھی دیں تو میں کہوں گا کہ یہ استدراج یعنی کوئی شعبدہ ہے،حقیقت نہیں۔ہمارے حضرات کہتے ہیں کہ وہ بدبخت، بدنصیب تھا۔ اگر ہاں کر لیتا تو حضرت شاہ صاحبؒ پر اس وقت ایسی جذب کی حالت طاری تھی کہ وہ اسے کشفاً جہنم میں جلتا ہوا دیکھ رہے تھے اور دکھا بھی سکتے تھے۔
مقدمہ کی سماعت ہو جانے کے بعد جب حضرت شاہ صاحبؒ واپس دیوبند جانے لگے تو مولانامفتی محمد صادقؒ اور دیگر علماء کو وصیت فرمائی کہ مقدمہ کا فیصلہ اگر تو میری زندگی میں ہو گیا تو میں سن لوں گا۔ اگر یہ فیصلہ میری وفات کے بعد ہو تو میری قبر پر آکر سنایاجائے۔ چنانچہ حضرتؒ کی واپسی کے بعد آپ کی جلد وفات ہوگئی اور یہ فیصلہ آپ کی وفات کے بعد ہوا اور حضرت مولانا محمد صادقؒ حضرت شاہ صاحبؒ کی وصیت کے مطابق خصوصی طور پردیوبند گئے اور شاہ صاحبؒ کی قبر پر کھڑے ہوکر یہ فیصلہ سنایا۔
الحمدﷲ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہواتھا۔ اس واقعہ سے آپ اندازہ لگائیں کہ حضرت شاہ صاحبؒ کو کتنی فکر اور کتنا لگاؤ اس مسئلہ سے تھا کہ وفات کے بعد بھی جبکہ وہ عالم برزخ میں چلے گئے تھے۔ وہاں بھی آپ کو اس کا انتظار تھا۔ یہ اس وقت کے مسلمانوں کو اس فتنہ کے استیصال کی طرف متوجہ کرنے کی ایک صداء تھی جو شاہ صاحبؒ نے وصیت کی شکل میں بلند کی۔ حضرت شاہ صاحب ؒ اس دنیا کو الوداع کہنے والے تھے۔ اس کا بھی ایک واقعہ بروایت حضرت علامہ مولانا شمس الحق صاحب افغانی ؒ سن لیں۔
حضرت علامہ افغانیؒ بھی علامہ کشمیریؒ کے اجلہ شاگردوں میں سے تھے۔ حضرت علامہ افغانیؒ نے فرمایا کہ جب حضرت کشمیریؒ کا آخری وقت آیا۔ کمزوری بہت زیادہ تھی۔ چلنے کی طاقت بالکل نہ تھی۔ فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچائیں۔ اس وقت کاروں کا زمانہ نہ تھا۔ ایک پالکی لائی گئی۔ پالکی میں بٹھاکر حضرت شاہ صاحبؒ کو دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچایاگیا۔