چوتھی طرف مولانا ظفر علی خانؒ جیسے بے باک صحافی، آتش بیان مقرر اور قادر کلام شاعر کو بھی حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ اور حضرت شاہ صاحب بخاریؒ نے ان کے پیچھے لگا دیاتھا۔ ’’الحب ﷲوالبغض فی اﷲ‘‘کے تحت حضرت شاہ صاحبؒ کو مرزاقادیانی سے کس قدر نفرت ہو چکی تھی اورآپ کے لب و لہجہ سے آپ کا مرزا غلام احمد سے بغض اس قدر نمایاں تھا کہ راقم الحروف نے اپنے اساتذہ سے سناہے کہ مرزا قادیانی کا جب بھی ذکرکرتے تو قادیانی کذاب یالعین یا شقی جیسی صفت کے بغیر کبھی اس کا نام نہ لیتے تھے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کشمیری کا ذکر آگیا ہے تو ایک دو واقعات کاذکر خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ جو میں نے اپنے اساتذہ سے سنے ہیں۔
میرے محبوب اور شفیق استاذ حضرت مولانا سید محمد بدرعالم میرٹھی ثم المدنیؒ نے دوران درس ایک مرتبہ قادیانی مناظرین کاذکر فرمایا کہ مرزائی کم بخت دارالعلوم دیوبند کی جامع مسجد میں مناظرے کرنے کے لئے پہنچ گئے۔ غالباً ان میں عبدالرحمن مصری بھی تھا۔ جو اصلاً تو ہندی تھا مگر کچھ عرصہ مصر رہاتھا۔ ان قادیانیوں کا اصرار تھا کہ مناظرہ عربی زبان میں ہو۔ ہمارے حضرات نے فرمایا کہ عربی زبان میں کیافائدہ ہوگا؟ عوام تو سمجھیں گے نہیں۔ جب بہت ہی اصرار بڑھا تو حضرت شاہ صاحبؒ کشمیری نے جو مسجد کے ایک کونہ میں بیٹھے یہ تمام کارروائی سن رہے تھے کہ برملا فرمایا کہ ان صاحبوںسے کہہ دو کہ ’’مناظرہ عربی زبان میں ہوگا اورنظم میں ہوگا۔تاکہ عربی پر قدرت اورعلمیت کا پتہ چلے۔‘‘ قادیانیوں نے جب شاہ صاحبؒ کی یہ بات سنی توبھاگ گئے۔
۲… ریاست بہاولپور میں قادیانیوں کے کفر و اسلام کا ایک مقدمہ چل رہاتھا۔ جب وہ آخری مراحل میں پہنچا تو شیخ الجامعہ حضرت مولانا محمد گھوٹویؒ اور حضرت مفتی محمد صادقؒ تمام علماء نے استدعاء کی کہ حضرت شاہ صاحبؒ کا ایک علمی بیان عدالت میں ہونا چاہئے۔ شاہ صاحب ان دنوں خونی بواسیر کے سخت مریض تھے۔ ڈاکٹروں حکیموں نے سفر سے بالکل روک دیا تھا۔ کمزوری بہت زیادہ ہو چکی تھی۔ لیکن جونہی شاہ صاحب ؒ کو دعوت پہنچی۔ آپ سفر کے لئے تیار ہو گئے۔ بہاولپور سے مفتی صادق صاحبؒ خود انہیں لینے دیوبند گئے تھے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ اگر قیامت کے روز حضور ﷺ نے یہ سوال کرلیاکہ میری ختم نبوت کا مقدمہ پیش تھا اور تجھے طلب کیاگیا اور تو نہیں گیا تو میں کیا جواب دوںگا؟
موت توآنی ہی ہے۔ اگر اسی راستہ میں آگئی تو اس سے بہتر اور کیاہوگا؟ تو حکیموں کے روکنے کے باوجود آپ تشریف لے گئے۔ جج صاحب جن کا نام محمد اکبرؒ تھا۔ وہ حضرت شاہ صاحبؒ کا بہت احترام کرتاتھا۔ آپ کو عدالت میں کرسی مہیا کی گئی اورحضرت شاہ صاحبؒ کا