ہوئے۔ حضرت جالندھریؒ کی وفات کے بعد مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسینؒ اختر امیر مقرر ہوئے۔ مولانا لال حسینؒ کی وفات کے بعد جماعت میں پھرتازہ خون بھرنے کی ضرورت تھی۔
حضرت مولانا شاہ صاحبؒکے شاگردوں میں استاذی المکرم حضرت مولانا علامہ محمد یوسف بنوریؒ زندہ تھے۔ علماء عصر نے مجلس ختم نبوت کو مزید مستحکم کرنے کے لئے حضرت علامہ بنوریؒ سے گزارش کی کہ اب جماعت کو وہ سنبھالیں۔ چنانچہ مولانا لال حسین اخترؒ کے بعد محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اس کے امیر مقرر ہوئے۔ تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء میں آپ نے ملک کی مذہبی اور سیاسی انیس جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تشکیل دی۔ اس کے متفقہ امیر حضرت علامہ بنوریؒ قرار پائے۔ حضرت علامہؒ نے یہ تحریک ایسے ضبط اور نظم و نسق سے چلائی کہ یہ بخیر و خوبی ساحل مراد سے جالگی۔ اس مجلس عمل کے وہی مطالبات تھے جو ۵۳ء کی مجلس عمل کی تحریک کے تھے۔
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اس کا بنیادی مطالبہ تھا اور یہی نقطہ تحریک کی روح رواں تھا۔ بندہ ان دنوں حضرت بنوریؒ کے حکم سے سعودی عرب اور عرب امارات میں تحریک کے متعلق کام کررہا تھا اور رابطہ کے جنرل سیکرٹری دارالافتاء کے رئیس شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اور شئون دینیہ کے رئیس شیخ عبداﷲ بن حمیدؒ سے رابطہ قائم کیا ہوا تھا۔ راقم الحروف نے وزیراعظم پاکستان بھٹو کے نام مجلس عمل کے مطالبات کی تائیدمیں مفصل تاردلوائے۔ اسی طرح عرب امارات کے سرکردہ سرکاری شخصیات کے علاوہ پاکستانی احباب سے بھی مطالبات کے حق میں تار دلوائے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے موجودہ امیر خانقاہ سراجیہ کے جانشین خواجہ خان محمدؒ آف کندیاں شریف ہیں۔ ان کی امارت میں بھی ۸۴ء میں ایک تحریک چلی۔ جس کے نتیجہ میں جنرل محمد ضیاء الحق صدر پاکستان نے ختم نبوت آرڈیننس جاری کیا۔ اس نتیجہ میں ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان کی مسلمانوں کو مغالطہ دینے والی اذانیں بند ہوگئیں۔ اسلامی شعائر کا استعمال ان کے لئے ممنوع قرار دیاگیا۔ یہ سب ثمرات اسی فکر و عمل کے ہیں۔ جن کی روح حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ نے مرکز دارالعلوم دیوبند سے اپنے تلامذہ اور معتقدین میں پھونکی تھی۔
حضرت سید انور شاہ صاحبؒ نے تیسری طرف ملک کے شہسوار مفکر اور شاعر اسلام ڈاکٹر محمداقبالؒ کو اس فتنہ کی سنگینی کی طرف متوجہ کیا۔ جنہوں نے نظم و نثر اور نظر وفکر ہر طریقہ سے پڑھے لکھے اونچے طبقہ کو اس فتنہ سے خبردار کیا اور انگریز کے اس دور میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ سب سے پہلے آپ نے ہی کیاتھا اور یہ و ہ نکتہ ہے جو حضرت شاہ صاحبؒ نے ہی آپ کے ذہن رسا میں ڈالاتھا۔