حضرت شاہ صاحبؒ کی جو عقیدت اورنسبت قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد محدث گنگوہیؒ سے تھی۔ وہ کسی صاحب علم سے مخفی نہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انہیں جن الفاظ میں ذکر کیا ہے۔وہ تقاضا کرتے ہیں کہ حضرت قطب الارشاد کا یہ عقیدت مند اس فتنۂ کبریٰ کو قریب سے سمجھے۔ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی گالیوں کی گردان کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’واخرھم الشیطٰن الاعمی والغول الاغوٰی یقال لہ رشید الجنجوہی وھو شقی کالامروھی ومن الملعونین‘‘(انجام آتھم ص۲۵۲، خزائن ج۱۱ص ایضاً) یعنی ان کے آخر میں ایک اندھا شیطان ہے اور گمراہ دیو ہے۔ جسے رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں۔ وہ امروہی کی طرح بدبخت اور ملعون ہے۔
مرزا غلام احمد نے ۱۸۹۷ء میں جن علماء کو مباہلہ کی دعوت دی تھی۔ ان میں پانچویں نمبر پر حضرت مولانا گنگوہیؒ کا نام بھی مرزاغلام احمد نے بڑے غیظ وغضب سے ذکرکیاہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کو غلام احمد کی اس تلخی نے اس طرف متوجہ کیا۔ ثانیاً آپ کشمیر کے رہنے والے تھے اور غلام احمد نے یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر تجویز کی تھی۔ اب تک اس کے پیرو سری نگر میں اس قبر کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ غلام احمد اسی خطہ کو پہلے ربوہ بتلاتا رہا۔ مرزا بشیرالدین محمود اسی تسلسل میں کشمیر کیس کا چیئرمین بنایاگیا تھا اور چوہدری ظفر اﷲ خان نے اپنی وزارت خارجہ کے دور میں جس طرح مسئلہ کشمیر کو الجھایا۔ اس میں قادیانی عقیدے کے اس پس منظر کو بھی بہت دخل ہے۔
حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ اس فتنہ کے متعلق اس قدر پریشان تھے کہ بروایت استاذی المکرم حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت شاہ صاحب فرایا کرتے تھے کہ چھ ماہ تک مجھے اس پریشانی کی وجہ سے نیند نہیں آئی۔ دعائیں اور استخارے کرتا رہا۔ آخر چھ ماہ کے بعد یہ تسلی دی گئی کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے گا۔ حضرت نے اس فتنہ کے استیصال اور خاتمے کے لئے سیاسی، فکری اور علمی ہر سطح پر کام شروع کیا۔ ایک طرف راسخ العلم علماء کی ایک جماعت تیار کی جو اس فتنہ کا محاسبہ کریں، اور میدان مناظرہ میں ان کا مقابلہ کریں۔ ان میں سرفہرست مناظر اسلام حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوریؒ، محدث شہیر مولانا سید محمد بدر عالم میرٹھی ثم المدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیعؒ جیسے جید علماء تھے۔ جنہوں نے ملک بھر میں ان کے ساتھ مناظرے کر کے ان کا ناطقہ بند کر دیا۔ دوسری طرف آپ نے مجلس احرار اسلام کی سرپرستی کی اور ان کے روح رواں خطیب الہند حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ جیسے آتش بیاں اور شعلۂ نوا مقرر کی سرپرستی میں مقررین کی ایک ٹیم کو متوجہ کیا۔ جس میں خطیب اسلام قاضی