من قبلک کا ذکر ہے اور غلام احمد نے بعد میں دعویٰ کیا ہے۔ اگر یہ سچا ہوتا تو من قبلک کی طرح بعد والے کا بھی ذکر ہوتا۔ معلوم ہوا کہ بعد میں دروازہ نبوت بند ہے۔ دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے۔ الیک اور قبلک پر ایمان رکھنے والے تو ہدایت اور فلاح یافتہ ہیں اور بعدک جو اپنی جانب سے بڑھائے وہ گمراہ اور ناکام ہے۔اسے مرزائیو! ہدایت پر آجاؤ۔ توبہ کرو۔
۶… ’’یاایھا النبی اناارسلناک شاھد اومبشراو نذیراود اعیا الی اﷲ باذنہ وسراجا منیرا (احزاب:۴۵،۴۶)‘‘ {اے نبی ہم نے آپ کو شہادت دینے والا اور خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور اﷲ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور چمک دار سورج بنا کردنیا میں رشد وہدایت کے لئے بھیجا ہے۔}
اس آیت کے ترجمہ اور تفسیر سے ختم نبوت آشکار ہوتی ہے۔ شاہد یعنی گواہ۔ اس کی تفسیر کئی طرح سے ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ گواہ ہوںگے قیامت میں انبیاء کی طرف سے جب ان کا اور ان کی امتوں کا معاملہ عدالت ربانی میں پیش ہوگا۔ تو آپ انبیاء سابقین کی گواہی دیںگے۔ ان کے فیصلے کے بعد نبی آخر الزمان کی آخری امت کا معاملہ پیش کیا جائے گا۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں آخری نبی اور میری امت آخری امت ہے۔ جب وہ انبیاء سابقین کی گواہی دیں گے تو مرزا قادیانی کا دعویٰ تو حضورﷺ کے بعد کا ہے۔ جب سب کا فیصلہ ہو جائے گا۔ تو غالباً جھوٹے نبی کا معاملہ ان کے جھوٹے خدادجال اور ان کے پیشوا شیطان کے ساتھ ہوگا۔ معلوم ہوا کہ حضور خاتم النّبیین ﷺ ہیں اور یہ جھوٹا نبی ہے۔
دوئم! یہ کہ انبیاء سابقین نے شرک کے مقابلہ میں توحید کی طرف سے گواہی دی کہ اﷲ ایک ہے۔ مگر یہ شہادت بغیر مشاہدے کے تھی۔ اس لئے کامیابی نہ ہوئی۔ دین کی تکمیل نہ ہوئی۔ اگرچہ انبیاء سابقین نے سچ کہا مگر بغیر دیکھے۔ لیکن جب دیکھنے والے معراجی دولہا شاہد بامشاہدہ آ گئے تو انبیاء کے قول کی تصدیق بھی ہوگئی اور شہادت بھی قابل تسلیم ہوئی۔ فیصلہ ہوگیا عدالت کا اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی سے معاملہ دین کا مکمل ہوگیا۔ شہادت اور نبوت ختم ہوئی۔ نبوت کی نعمتیں بھی ختم۔محمد رسول ﷺ کے نام کی مہر لگ گئی اور عدالت بند ہوگئی۔ اب بعد میں غلام یعنی مرزا جی پہنچے کہ ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں تاکہ مشہور ہوں ہزاروں میں۔