دیا تو کوئی ہماری مفسروں اور محدثوں میں سے جوش خروش میں نہیں آیا اور جب خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو عیسیٰ یا مثیل عیسیٰ کرکے پکارا تو سب کی شدت طیش اورغضب کی وجہ سے چہرے سرخ ہو گئے اور سخت درجہ کا اشتعال پیدا ہوکر کسی نے اس عاجز کو کافر ٹھہرادیا اور کسی نے اس عاجز کا نام ملحد رکھا۔ جیسا کہ مولوی عبدالرحمن صاحب خلف مولوی محمد لکھو والہ نے اس عاجز کا نام ملحد رکھا۔‘‘
ف… اہل انصاف غور کریں کہ مرزا قادیانی کا دعویٰ بھی اپنی زبان سے یہ ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے حضرت آدم اورحضرت نوح علیہ السلام اور حضرت یوسف اور حضرت داؤد اورحضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم اور حضرت محمد ﷺ کا مثیل بنادیا۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کا مدعی خود ہی گواہ ہو اور مولوی عبدالرحمن صاحب مرحوم کا مرزا قادیانی کو کافر کہنا بھی اسی بناء پر ہے کہ مجھ کو خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ شخص یعنی مرزا قادیانی کافر ہے۔ بلکہ اکثر علمائے ہندوستان اور پنجاب نے مرزا قادیانی کو کفر کا فتویٰ دے دیا ہے۔ جو چھپا ہوا میرے پاس موجود ہے۔
اور(ازالہ اوہام ص۶۹۵ ، خزائن ج۳ص۴۷۵)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’اس حکیم مطلق نے اس عاجز کا نام آدم اورخلیفۃ اﷲ رکھ کر اور ’’انی جاعل فی الارض خلیفۃ‘‘ کی کھلے کھلے طور پر براہین احمدیہ میں بشارت دے کر لوگوں کو توجہ دلائے کہ تاکہ اس خلیفۃ اﷲ آدم کی اطاعت کریں اور اطاعت کرنے والی جماعت سے باہر نہ رہیں اور ابلیس کی طرح دھوکہ نہ کھاویں اور ’’من شذشذ فی النار‘‘کی تحدید سے بچیں۔‘‘
ف… اس جگہ مرزا قادیانی خلیفۃ اﷲ آدم ہونے کے دعویٰ دار بنے اور اپنی اطاعت کرانے کے لئے بھی مدعی اور نیز یہ بھی لکھا کہ جو اطاعت نہ کرے گا شیطان کی طرح دوزخی ہوگا۔ یعنی دوزخ کی دھمکی دیتے ہیں۔ اپنی اطاعت کرانے کے لئے۔ اﷲ بچائے ایسی کج روی سے۔
اور (ازالہ اوہام ص۵۶۳،خزائن ج۳ص۴۰۳)میں تحریر کرتے ہیں:’’ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میری تقویت کے لئے ایک او ر ہاتھ چل رہا ہے۔ جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے۔ جس نے پتلی کی طرح اس مشیت خاک کوکھڑا کر دیا ہے۔‘‘
ف… اہل انصاف غور کریں کہ یہ کیسا بیجا فخر ہے اور یہ بھی ایک ایسا دعویٰ ہے جیسے کوئی آپ ہی مدعی اورآپ ہی گواہ ہو۔
اور (ازالہ اوہام ص۱۱۸، خزائن ج۳ ص۱۵۸ حاشیہ)میں لکھتے ہیں:’’جو بات اس عاجز کی