ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
کہتے ہیں ـ ص 44 (80) نسبت فنا کی زائل نہیں ہوتی مقام ہو جاتی ہے ـ ایضا (81) جس کا تعلق حق سے نہ ہو وہ غیر حق ہے اور جس کا تعلق حق کے لئے ہو وہ غیر حق نہیں ہے ـ ایضا (82) نسبت ایک ہی ہے صرف اس کے کیفیات والو ان بمدار استعداد مختلف ہوتے ہیں ـ (83) مراقبہ و شغل احوال پیدا کرنے کے لئے ہیں جب احوال پیدا ہو گئے تو ان کی ضرورت نہیں ہے ـ ایضا (84) کسی کیفیت و حال کو بقاء نہیں ہے ـ ص 45 (85) انتہائی حالت میں عقل طبیعت پر غالب رہتی ہے اس لئے سکون رہتا ہے ـ یہی وجہ ہے کہ صحابہ و انبیاء مستی و شورش سے خالی تھے بخلاف متوسطین اولیاء کے ـ ایضا (86) کثرت فکر و مراقبہ و مجاہدہ سے مقصود تہذیب نفس و اصطلاح قلب ہے ـ ص 46 (87) لطائف ستہ کے الوان و انوار سلوک کا جز نہیں ہے صرف یکسوئی میں معین ہوتے ہیں ایضا (88) نسبت جو عبارت ہے حضور مع اللہ سے اس کو کوئی سلب نہیں کر سکتا ـ ایضا (89) اور جو سلب کی جاتی ہے وہ کیفیت شوق ہے جو بہ برکت ذکر پھر عود کر سکتی ہے ـ ایضا (90) متقی مجاہدہ کو اپنی نسبت کا علم ہوتا ہے اور متقی غیر مجاہدہ کو اپنی نسبت کا علم نہیں ہوتا ـ ص 47 (91) اصطلاح صوفیہ میں توجہ الی الصفات کو مشاہدہ کہتے ہیں اور توجہ الی الذات بلا التفات الی الصنعات کو معائنہ اور تجلی ذاتی سے تعبیر کرتے ہیں ـ ایضا (92) مکاشفات و خواب میں حق تعالی کو دیکھنا صورت مثالیہ میں سے کسی لون کا دیکھنا ہے جو مخلوق ہے اس کو تجلی مثالی کہتے ہیں ـ ص 47 (93) صاحب نسبت کے پہچاننے کا بہتر طریقہ اعمال سے ہے کہ اتباع کامل شرع کا ہے یا نہیں ہے ـ دوسرا طریقہ احوال سے پہچاننے کا ہے کہ اس کے لئے کشف کی ضرورت ہے ـ ص 48 (94) اگر کسی تجلی کے ظہور کے بعد ضلالت و وحشت کی علامت پائی جائے تو یہ تجلی شیطانی ہے اگر ہدایت اور انس و فرحت کی علامت پائی جائے تو تجلی رحمانی ہے ـ ایضا